ایمان کے فارس سے تعلق رکھنے والے شخص کے بارے میں حدیث کی وضاحت
حدیث کا متن
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"(لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ – أَوْ قَالَ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ – حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ)”
ترجمہ: اگر دین ثریا (ستارے) کے پاس بھی ہوتا تو فارس یا اولادِ فارس میں سے ایک شخص اسے پالیتا۔
(صحیح مسلم: 2546، ترقیم دارالسلام: 6497)
دیگر روایات میں الفاظ کی مختلف صورتیں
◈ مصنف عبدالرزاق میں اسی حدیث کو درج ذیل الفاظ سے نقل کیا گیا ہے:
"لَذَهَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ: لَذَهَبَ رِجَالٌ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلُوهُ”
(جلد 11، صفحہ 65، حدیث 19923؛ دوسرا نسخہ: جلد 10، صفحہ 114، حدیث 20092)
◈ اخبار اصفہان از ابی نعیم الاصفہانی
(جلد 1، صفحہ 4) میں یہی روایت انہی الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
◈ مسند احمد میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ حدیث یوں نقل کی:
"لَذَهَبَ رِجَالٌ مِنْ فَارِسَ: لَذَهَبَ رِجَالٌ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلُوهُ”
(مسند احمد: جلد 2، صفحہ 309، حدیث 8081؛ موسوعہ حدیثیہ: جلد 13، صفحات 444-445)
◈ صحیح بخاری (4898) اور صحیح مسلم
(2546، ترقیم دارالسلام: 6498) میں دوسرے اسناد کے ساتھ یہ حدیث مختلف الفاظ میں یوں بیان ہوئی ہے:
"لَنَالَهُ رِجَالٌ هَؤُلَاءِ”
نیز صحیح بخاری (4897) میں موجود متن:
"لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ”
حدیث کی دو تشریحات
اس حدیث سے دو معانی اخذ کیے گئے ہیں:
➊ رجل (فارس کا ایک شخص)
➋ رجال (فارس کے کئی افراد)
پہلا مفہوم – رجل (فارس کا ایک شخص)
اس سے مراد سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جیسا کہ درج ذیل دلائل سے ثابت ہوتا ہے:
◈ سیاق حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہاتھ رکھ کر یہ بات فرمائی۔
(صحیح بخاری: 4897)
◈ حافظ ابن عبدالبر نے اس حدیث کو سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں ذکر کیا ہے۔
(الاستیعاب: جلد 1، صفحہ 382، ترجمہ 1013)
دوسرا مفہوم – رجال (فارس کے کئی افراد)
اس سے مراد وہ جلیل القدر فارسی محدثین ہیں جو دینی علم میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے قرطبی سے نقل کیا ہے:
"ان (فارسی) لوگوں میں حفاظ حدیث مشہور ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں”
(فتح الباری: جلد 8، صفحہ 643، تحت حدیث 4898)
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"ومصداق ذلك ما وجد في التابعين ومن بعدهم من أبناء فارس الأحرار والموالي مثل الحسن وابن سيرين وعكرمة مولى ابن عباس وغيرهم….الخ”
(اقتضاء الصراط المستقیم، صفحہ 145)
یعنی اس حدیث کا مصداق وہ تابعین اور ان کے بعد کے لوگ ہیں جو فارس کے آزاد یا آزاد کردہ غلام تھے، مثلاً:
◈ حسن بصری
◈ محمد بن سیرین
◈ عکرمہ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہ
◈ اور دیگر جلیل القدر علماء
ان میں شامل ہیں:
◈ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمۃ اللہ علیہ
(رحمہم اللہ اجمعین)
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا حدیث کے مصداق ہونا؟
ابن حجر مکی الہیتمی (متوفی 974ھ) کا اس حدیث میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو "رجل” قرار دینا دو وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
1. امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فارسی ہونا ثابت نہیں
◈ صحیح سند سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فارسی ہونا ثابت نہیں۔
◈ حنفیہ علماء جیسے سیوطی، ابن حجر مکی وغیرہ جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ غلط اور بے بنیاد ہیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے: توضیح الاحکام، جلد 2، صفحات 401-402)
2. امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کابل کے رہائشی تھے
◈ امام ابو نعیم الفضل بن دکین الکوفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 218ھ) نے فرمایا:
"ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی، آپ کی اصل کابل سے ہے”
(تاریخ بغداد: جلد 13، صفحات 324-325، سند صحیح ہے)
◈ کابل اور فارس دو مختلف ممالک ہیں:
(معجم البلدان: جلد 3، صفحہ 426؛ جلد 4، صفحہ 226)
(توضیح الاحکام: جلد 2، صفحہ 402)
◈ اس لیے "کابلی کو فارسی بنانا” تحریفِ تاریخ اور دھوکہ دہی ہے۔
غلام رسول سعیدی بریلوی کا موقف اور اس کی تردید
عینی حنفی نے اس حدیث کے مصداق میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہیں کیا۔
البتہ غلام رسول سعیدی نے بریلویت کے دفاع میں سیوطی اور علامہ شامی سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دعویٰ نقل کیا:
> "اس میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ ہے۔”
اور مزید نقل کیا:
> "حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد علامہ شامی نے کہا کہ ہمارے استاد (سیوطی) کا قول بالکل درست ہے۔ اس حدیث سے مراد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں کیونکہ ابناء فارس میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقام علم و فضل تک کوئی نہیں پہنچا۔”
(شرح صحیح مسلم، جلد 6، صفحہ 1243)
یہ بیان چار وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
➊ سیوطی کی وفات 911ھ میں ہوئی جبکہ ابن عابدین شامی 1198ھ میں پیدا ہوئے۔
یعنی دونوں کے درمیان 287 سال کا فاصلہ ہے۔
(معجم المؤلفین: جلد 3، صفحہ 145، ترجمہ 12274)
کیا شامی قبر میں جا کر سیوطی سے تعلیم لینے گئے تھے؟
➋ سیوطی غیر مقلد تھے
اس کے لیے ملاحظہ ہو:
"الرد على من أخلد إلى الأرض و جهل أن الاجتهاد في كل عصر فرض”
➌ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فارسی نہیں تھے
➍ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کابلی تھے
حدیث کا اصل مصداق کون؟
اس روایت کا اصل مصداق:
◈ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
◈ احادیث، تفاسیر، اور علم الرجال پر کتب لکھنے والے جلیل القدر فارسی محدثین
ہیں۔
چیلنج حنفیہ، بریلویہ اور دیوبند کے لیے
اگر یہ تینوں مکاتب فکر ناراض نہ ہوں تو سوال یہ ہے:
◈ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح ابو حنیفہ کہاں ہے؟
◈ ان کی کتاب التفسیر کہاں ہے؟
◈ ان کی اصول فقہ اور اصول حدیث پر لکھی گئی کتاب کہاں ہے؟
◈ ان کی اسماء الرجال کی کتاب کہاں ہے؟
آخری نصیحت
اپنے دین میں غلو نہ کریں۔
عدل و انصاف سے کام لیں۔
اور یاد رکھیں:
"کیا صبح قریب نہیں ہے؟”
(13 اگست 2011ء)
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب