حافظ قرآن اور رشتہ داروں کی شفاعت: کیا یہ بات صحیح ہے؟
سوال:
کیا یہ بات درست ہے کہ قیامت کے دن ایک حافظِ قرآن اپنے رشتہ داروں کی شفاعت کرے گا؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں جس روایت کو بیان کیا جاتا ہے، وہ مختلف محدثین کے ہاں ضعیف بلکہ سخت ضعیف ہے۔ آئیے اس روایت اور اس کے اسناد کی تفصیل دیکھتے ہیں:
حدیث کی روایت
یہ روایت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
(المسند 1/148، حدیث: 1268، 1278)،
امام ترمذی
(حدیث: 2905)
اور ابن ماجہ
(حدیث: 216)
نے نقل کی ہے۔ روایت درج ذیل سند سے مروی ہے:
"حفص بن سلمان ابو عمر البزاز عن کثیر بن زاذان عن عاصم بن ضمرہ عن علی رضی اللہ عنہ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من قرأ القرآن وحفظه أدخله الله الجنة وشفعه في عشرة من أهل بيته، كلهم قد وجبت لهم النار”
’’جس نے قرآن پڑھا اور اسے یاد کیا (پھر اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا)، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کے دس ایسے اہلِ بیت کی شفاعت قبول کرے گا جن پر دوزخ واجب ہو چکی ہو۔‘‘
(نیز دیکھئے: مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2141 – و ما بین القوسین منہ)
اسناد کی تحقیق
روایت کے بارے میں امام ترمذی نے خود وضاحت فرمائی:
"ھذا حدیث غریب……… ولیس له اسناد صحیح، و حفص بن سلیمان ابو عمر بزار کو فی یصعف فی الحدیث”
’’یہ حدیث غریب ہے…… اور اس کی کوئی صحیح سند نہیں ہے، اور حفص بن سلیمان ابو عمر البزار کو حدیث میں ضعیف سمجھا جاتا ہے۔‘‘
حفص بن سلیمان کے بارے میں محدثین کی آراء:
◈ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
"ترکوه”
یعنی محدثین نے اسے ترک کر دیا ہے۔
(کتاب الضعفاء للبخاری: ص 73، بتحقیقی)
◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا:
"متروك الحديث”
یعنی یہ راوی متروک الحدیث ہے۔
(کتاب الضعفاء للنسائی: ص 134)
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:
تہذیب الکمال للمزی: 36/5، 37
تنبیہ:
◈ بعض لوگوں کے نزدیک امام وکیع نے حفص کو ثقہ کہا ہے، لیکن یہ
باسند صحیح ثابت نہیں۔
◈ اگر بالفرض یہ بات درست ہو بھی تو اس کا تعلق صرف قراءت (قرآن کی قراءت) سے ہے، نہ کہ حدیث سے۔ یعنی وہ قراءت میں ثقہ ہے، مگر حدیث میں متروک ہے۔
دوسرے راوی: کثیر بن زاذان
اس کے متعلق بھی محدثین کی آراء منفی ہیں:
◈ امام ابو حاتم الرازی اور ابو زرعہ الرازی نے فرمایا:
"شیخ مجھول”
یعنی یہ راوی مجہول ہے۔
(الجرح و التعدیل: 7/151)
نتیجہ:
◈ مذکورہ روایت سخت ضعیف ہے۔
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف جداً” قرار دیا ہے۔
دیکھئے:
◈ ضعیف الترغیب و الترہیب: 1/432
◈ ضعیف الجامع: حدیث 5761
ضعیف روایت بیان کرنے کا حکم
◈ سخت ضعیف روایت بغیر کسی جرح کے بیان کرنا جائز نہیں۔
◈ افسوس ہے ان خطیبوں اور واعظین پر جو حفظِ قرآن کی تکمیل کی محافل میں اس روایت کو بڑے جوش سے بیان کرتے ہیں، حالانکہ اس کا ضعف شدید ہے۔
ضعیف روایت کے بارے میں علماء کے دو موقف
➊ اول موقف:
ضعیف روایت فضائل و مناقب میں بھی حجت نہیں۔
◈ یہ موقف ابن العربی وغیرہ کا ہے
◈ یہی راجح (مضبوط) موقف ہے۔
➋ دوسرا موقف:
ضعیف روایت فضائل و مناقب میں حجت، مستحب یا جائز ہے۔
◈ یہ موقف امام نووی وغیرہ کا ہے
◈ لیکن یہ مرجوح (کمزور) ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی شرط:
"الأول متفق عليه أن يكون الضعف غير شديد”
’’پہلی شرط جس پر سب کا اتفاق ہے یہ ہے کہ روایت میں ضعف شدید نہ ہو۔‘‘
(القول البدیع للسخاوی: ص 258)
خلاصہ
روایت جس میں حافظِ قرآن کی قیامت کے دن دس رشتہ داروں کی شفاعت کی بات ہے، اس کا سند صحیح نہیں، بلکہ یہ روایت سخت ضعیف ہے اور معتبر دلائل سے اس کو بیان کرنا جائز نہیں۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب