سوال : بعض اہل علم حائضہ کو تلاوت قرآن کی اجازت دیتے ہیں اور بعض اس سے منع کرتے ہیں، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ کیا حائضہ عورت قرآن پڑھ سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب : اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم کی اس مسئلے میں مختلف آراء ہیں۔ امام بخاری، امام ابن جریر طبری، امام ابن منذر، امام مالک، امام شافعی اور امام ابراہیم نخعی، ان سب کے نزدیک حائضہ عورت کے قرآن کی تلاوت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ راحج بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں کوئی صریح اور صحیح دلیل موجود نہیں جس میں حیض والی عورت کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ عورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حائضہ ہوتی تھیں۔ اگر قرآن مجید کی تلاوت ان کے لیے حرام ہوتی تو اللہ کے رسول انھیں قرآن مجید کی تلاوت سے روک دیتے جس طرح کہ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے سے روک دیا تھا اور جب حیض کی کثرت کے باوجود صحابی رسول نے یا امہات المومنین میں سے کسی نے امام الانبیاء سے اس کی ممانعت نقل نہیں کی تو معلوم ہوا کہ جائز ہے۔ اب اس چیز کا علم ہونے کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت بالکل منقول نہیں اس کو حرام کہنا درست نہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جو حدیث مروی ہے :
لا يقرا الجنب و الحائض شيئا من القرآن [ ابن ماجه، كتاب الطهارة و سننها : باب ما جاء فى قراءة القرآن على غير طهارة 596]
” حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ بھی نہ پڑھیں۔ “
یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے جب یہ شخص حجازیوں سے کوئی روایت بیان کرے تو وہ قابل اعتماد نہیں ہوتی۔ یہ روایت حجازیوں ہی سے ہے۔
دوسری حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يقرأ الحائض و لا النفساء من القرآن شيئا [ دارقطنى، كتاب الجنائز : باب تخفيف القراءة لحاجة 1854 ]
” حائض اور نفاس والی عورتیں قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔ “
یہ حدیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ اس کی سند میں محمد بن الفضل ہے، جسے محدثین نے متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ احادیث گھڑنے کا بھی اس پر الزام ہے۔
یہی حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی مروی ہے۔ اس کی سند میں یحیٰی بن ابی انیسہ ہے اور یہ کذاب ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ ان دونوں احادیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
لا يصلحان للاحتجاج بهما على ذلك فلا يصار إلى القول بالتحريم إلا بدليل [ نيل الأوطار 446/1]
”ان دونوں حدیثوں کو حائضہ عورت کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی ممانعت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا اور بغیر دلیل کے اسے حرام نہیں کیا جا سکتا۔ “
باقی مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ایسی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتی، زبانی پڑھ سکتی ہے لیکن مجھے اس کی کوئی دلیل نہیں ملی۔
لا يمس القرآن إلا طاهر [ ارواء الغليل 122 ]
”قرآن کو طاہر کے سوا کوئی نہ چھوئے“ اس سے اس پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ الا طاهر کا معنی بخاری شریف کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث متعین کرتی ہے کہ اس کا معنی ہے مومن کے سوا قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔ (واللہ علم)