کیا جنوں کو قابو کیا جا سکتا ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث جلد, 09

سوال

کیا جن قابو میں آ سکتے ہیں؟ اگر آ سکتے ہیں تو کیا ہم انہیں قابو کر سکتے ہیں یا نہیں؟ نیز، بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو جن چمٹ گئے ہیں، تو اس کا علاج کس طرح کیا جائے؟ کیا جن کو حاضر کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس موضوع پر تفصیل بیان کریں۔

جواب

الحمد للہ! جن بھی اللہ کی مخلوقات میں سے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے:

﴿وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ‌ السَّمُومِ﴾
(الحجر: 27)
"اور ہم نے جنوں کو اس سے پہلے آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔”

﴿وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِ‌جٍ مِّن نَّارٍ‌﴾
(الرحمٰن: 15)
"اور جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔”

➊ جنوں کی اقسام

قرآن مجید میں واضح کیا گیا ہے کہ جنوں میں سے کچھ نیک اور مسلم ہیں، جبکہ کچھ بد اور ظالم ہیں:

﴿وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ﴾
(الجن: 11)
"ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس سے کم درجے کے ہیں۔”

﴿وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ﴾
(الجن: 14)
"ہم میں سے کچھ مسلمان ہیں اور کچھ بے انصاف ہیں۔”

➋ جنوں کا قابو ہونا

جن قابو ہو سکتے ہیں، جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنات ان کے قابو میں تھے اور ان کے احکام کی پیروی کرتے تھے:

﴿وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ﴾
(ص: 37)
"اور شیطان ان کے لیے معمار اور غوطہ زن تھے۔”

نیز، فرمایا:

﴿وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَ‌بِّهِ﴾
(سبا: 12)
"اور بعض جن ان کے سامنے اپنے رب کے حکم سے کام کرتے تھے۔”

➌ نبی کریم ﷺ اور جن

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ جن کو قابو کرنے کا ارادہ فرمایا، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کو یاد کر کے آپ نے جن کو چھوڑ دیا:
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ص)​۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایک واقعہ ہوا کہ انہوں نے جن کو دو مرتبہ پکڑا، اور اس جن نے انہیں آیۃ الکرسی سکھا دی:
(صحیح بخاری، کتاب الوکالة)​۔

➍ جنوں کو قابو کرنے کا شرعی حکم

اسلامی شریعت میں عام لوگوں کے لیے جنوں کو قابو کرنا یا ان سے مدد لینا جائز نہیں ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جنات پر قابو حاصل تھا، لیکن یہ ایک خاص معجزہ تھا جو اللہ نے ان کو عطا کیا تھا۔ عام انسانوں کے لیے جنوں کو قابو کرنے یا ان سے فائدہ اٹھانے کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ، جنات سے تعلق بنانا یا ان سے مدد مانگنا سختی سے منع ہے:

﴿وَأَنَّهُ كَانَ رِ‌جَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِ‌جَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَ‌هَقًا﴾
(الجن: 6)
"اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات سے پناہ مانگتے تھے، جس سے ان کا غرور بڑھ جاتا تھا۔”

➎ جنات کے اثرات سے بچاؤ

اگر کسی پر جن کا اثر ہو یا لوگ دعویٰ کریں کہ جنات چمٹ گئے ہیں، تو اس کا علاج شرعی طور پر قرآن اور احادیث میں بتائے گئے طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ آیۃ الکرسی، سورہ الفاتحہ، سورہ البقرہ، سورہ الاخلاص، سورہ الفلق، اور سورہ الناس پڑھ کر دم کیا جائے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "آیۃ الکرسی پڑھنے والا اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے، اور اس کے قریب کوئی جن یا شیطان نہیں آتا۔”
(صحیح بخاری)​۔

➏ جن کو قابو کرنے یا ان سے پوچھنے کا شرعی حکم

عام لوگوں کے لیے جنات کو قابو کرنے، حاضر کرنے یا ان سے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ عمل شریعت میں ناپسندیدہ ہے اور اس میں شرک یا گمراہی کا خدشہ ہے۔ ایسے مریضوں کو جنات سے نجات دلانے کے لیے روحانی علاج کیا جائے، جیسے قرآن کی تلاوت اور مسنون دعاؤں کا ورد۔

➐ خلاصہ

◄ جن قابو میں آ سکتے ہیں، لیکن یہ طاقت حضرت سلیمان علیہ السلام کو دی گئی تھی، عام لوگوں کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے​۔
◄ جنات کا علاج قرآن و سنت کے مطابق ہونا چاہیے، نہ کہ غیر شرعی طریقوں سے​۔
◄ جنات کو حاضر کرنے یا ان سے مدد مانگنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ یہ عمل شریعت کے خلاف ہے​۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1