کیا جنات کا وجود ہے؟
ماہنامہ السنہ جہلم

جواب: جنات کا وجود قرآن ، متواتر احادیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔ تمہیں کے قریب قرآنی آیات اس پر دلالت کناں ہیں ، البتہ جہمیہ ، معتزلہ ، فلاسفہ ، جمہور قدریہ اور زنادقہ و ملاحدہ جنات کی وجود کی حقیقت کے منکر ہیں ۔ مختصر دلائل ملاحظہ ہوں:
➊ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَكَذَالِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ﴾ [ الأنعام: ١١٢]
”ہم نے ہر نبی کے انسانوں اور جنوں میں سے شیاطین دشمن بنائے تھے ۔ “
➋ نیز فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ﴾ [الحجر: 27]
” ہم نے انسانوں سے پہلے جنوں کو شعلے مارتی آگ سے پیداکیا ۔ “
➌ فرمانِ خداوندی ہے:
﴿وَخَلَقَ الجَانَّ مِنْ مَّارِجٍ مِنْ نَارٍ﴾ [الرحمن: ١٥]
”اللہ نے جنوں کو شعلے مارتی آگ سے پیدا کیا ۔ “
➍ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خلقت الملائكة من نور ، وخلق الجان من مارج من نار ، وخلق آدم مما وصف لكم .
”فرشتے نور سے اور جنات شعلے مارتی آگ سے پیدا ہوئے ۔ سید نا آدم علیہ السلام کے تخلیقی مرحلہ سے تو آپ پہلے ہی آگاہ ہیں ۔ “ [صحيح مسلم: ٢٩٩٦]
➎ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هما من طعام الجن ، وإنه أتاني وفد جن نصيبين ، ونعم الجن ، فسألوني الزاد ، فدعوت الله لهم أن لا يمروا بعظم ، ولا بروثة إلا وجدوا عليها طعاما .
”ہڈی اور لید جنوں کی خوراک ہے ۔ میرے پاس نصیبین (مدینے کی بستی) کے جنوں کا وفد آیا ، کیا ہی اچھے جن تھے ، مجھ سے اشیائے خوردنی کا سوال کرنے لگے ، میں نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ملنے والی ہر ہڈی پر کھانا مل جائے ۔“ [ صحيح البخاري: ٣٨٦٠]
➏ سید نا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فإذا جني قائم بين يدي .
”ایک جن میرے سامنے کھڑا تھا ۔“ [السنن الكبرى للنسائي: ٧٩٦٣ ، وسنده حسن]
➐ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
سمعت الجن يبكين على حسين .
”میں نے ایک جن کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر روتے سنا ۔“ [فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل: 1373 ، وسنده صحيح]
➑ علامه ابن حزم رحمہ اللہ (456ھ) فرماتے ہیں:
إن الجن حق وهم خلق من خلق الله عز وجل ، فيهم الكافر والمؤمن ، يروننا ولا نراهم ، يأكلون وينسلون ويموتون .
” جنات کا وجود حق ہے ، اللہ کی مخلوق ہیں ۔ ان میں مؤمن و کافر ہر دو قسم کے افراد موجود ہیں ۔ وہ ہمیں دیکھتے ہیں ، ہم انہیں نہیں دیکھ پاتے ۔ کھانا ، نسل بڑھانا اور مر جانا ان کی فطرت میں شامل ہے ۔“ [المحلى بالآثار: 33/1]
➒ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661 – 728 ھ) لکھتے ہیں:
لم يخالف أحد من طوائف المسلمين فى وجود الجن ولا فى أن الله أرسل محمدا صلى الله عليه وسلم إليهم ، وجمهور طوائف الكفار على إثبات الجن أما أهل الكتاب من اليهود والنصارى فهم مقرون بهم كإقرار المسلمين وإن وجد فيهم من ينكر ذالك وكما يوجد فى المسلمين من ينكر ذالك كما يوجد فى طوائف المسلمين الغالطين والمعتزلة من ينكر ذالك وإن كان جمهور الطائفة وأئمتها مقرين بذالك ، وهذا لأن وجود الجن تواترت به أخبار الأنبياء تواترا معلوما بالاضطرار ومعلوم بالاضطرار أنهم أحياء عفلاه فاعلون بالإرادة بل مأمورون منهيون ليسوا صفات وأعراضا قائمة بالإنسان أو غيره كما يزعمه بعض الملاحدة فلما كان أمر الجن متواترا عن الأنبياء تواترا ظاهرا تعرفه العامة والخاصة لم يمكن لطائفة كبيرة من الطوائف المؤمنين بالرسل أن تنكرهم .
”تمام فرق ہائے مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جنات کا وجود ہے اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ان کے لیے بھی ہے ۔ کفار کے اکثر گروہ بھی جنوں کی حقیقت تسلیم کرتے ہیں ، یہود و نصاری بھی مسلمانوں کی طرح جنات کا وجود تسلیم کرتے ہیں ، گو کچھ منکر بھی ہیں ، معدودے چند منکر تو مسلمانوں میں بھی ہیں ۔ کچھ غالی مسلمانوں اور معتزلہ کی جماعتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں ، لیکن اکثر جماعتیں اور ان کے ائمہ جنات کا وجود مانتے ہیں ، کیوں کہ جنات کے وجود سے متعلق انبیاء کے واقعات اس قدر متواتر ہیں کہ جنہیں مانے بغیر چارہ نہیں ۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ زندہ ، صاحب عقل ، خود مختار ، بلکہ شریعت کے مکلف ہیں ۔ یہ کوئی عارضہ یا وہم نہیں جو بعض انسانوں کو لاحق ہو جاتا ہے ، جیسا کہ بعض ملحدوں کا خیال ہے ۔ جب جنوں کا معاملہ اس قدر متواتر ہے کہ جسے ہر خاص و عام بخوبی سمجھ سکتا ہے ، تو پھر رسولوں پر ایمان رکھنے والی اتنی بڑی جماعت کے لیے جنات کی حقیقت کا انکار ممکن نہیں ۔ “ [ مجموع الفتاوى: 10/19]
➓ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ (974.909ھ) لکھتے ہیں ۔
وأما الجان ، فأهل السنة يؤمنون بوجودهم ، وإنكار المعتزلة لوجودهم فيه مخالفة للكتاب والسنة والإجماع ، بل ألزموا به كفرا لأن فيه تكذيب النصوص القطعية بوجودهم ، ومن ثم قال بعض المالكية: الصواب كفر من أنكر وجودهم ، لأنه جحد نص القرآن والسنن المتواترة والإجماع الضروري وهم مكلفون قطعا ، ومن ثم وعدوا
مغفرة الذنوب والإجارة من عذاب أليم فى الآية التى فى السؤال وتوعدوا بالعقاب .

”اہل سنت جنات کا وجود مانتے ہیں ۔ معتزلہ انکاری ہیں ، جو کہ قرآن دست اور اجماع امت کی مخالفت ہے ، بلکہ کفر ہے ، اس سے جنات کے وجود پر دلالت کرنے والی قطعی نصوص کا انکار لازم آتا ہے ۔ تب ہی تو بعض مالکیہ نے کہا ہے: جنات کے وجود کا منکر کافر ہے ، کیوں کہ اس سے قرانی نص ، احادیث متواترہ اور اجماع کا انکار لازم آتا ہے ۔ جنات کا مکلف ہونا ایک قطعی حقیقت ہے ، اسی لیے تو ان سے قرآن میں گناہوں کی معافی اور الم ناک عذاب سے رہائی کا وعدہ کیا گیا ہے ۔“ [الفتاوى الحديثية ، ص 89]
تلك عشرة كاملة
جنات کے وجود کا منکر کافر ہے ، کیوں کہ ایسا شخص قرآن و حدیث اور اجماع امت کی تکذیب کر رہا ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل
1