سوال:
کیا جماعت میں کندھے سے کندھا ملانا ضروری ہے؟
جواب:
جماعت میں کندھے سے کندھا ملانا ضروری ہے۔
❀ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آپ اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے، جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور صف بستہ ہوتے ہیں؟ عرض کیا: اللہ کے رسول! فرشتے کیسے صف بناتے ہیں؟ فرمایا: پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے یوں مل کر کھڑے ہوتے ہیں کہ درمیان میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔“
(صحيح مسلم: 430)
❀ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہمارے کندھوں کو اپنے دست مبارک سے برابر کرتے اور فرماتے: سیدھے ہو جاؤ، ٹیڑھے نہ ہو، ورنہ دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آج آپ سخت اختلاف کا شکار ہیں۔“
(صحيح مسلم: 432)
معلوم ہوا کہ صفیں ٹیڑھی ہوں تو دل بھی ٹیڑھے ہو جاتے ہیں، مودت و محبت ختم ہو جاتی ہے، دشمنی اور عداوت گھر کر جاتی ہے، دلوں کو بغض، حسد اور عناد جیسی مہلک بیماریاں گھیر لیتی ہیں، بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے، دوستی رنجشوں میں بدل جاتی ہے، دلوں میں ایسی پھوٹ پڑتی ہے کہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا گوارا نہیں ہوتا۔ آج بھی اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حدیث کو فیصل و حاکم مان کر اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ائمہ مساجد اپنی ذمہ داری سے غافل ہیں، صفوں کی درستی پر توجہ نہیں دیتے۔ ایسوں کو اللہ تعالیٰ روز قیامت ضرور پوچھے گا۔ ائمہ کو اس وقت تک نماز شروع نہیں کرنی چاہیے، جب تک صفیں درست نہ ہو جائیں۔
❀ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں داخل ہو کر ایک جانب سے دوسری جانب تک جاتے۔ سینوں اور کندھوں کو ہاتھوں سے درست کرتے اور فرماتے: ٹیڑھے نہ ہوا کریں، ورنہ دل ٹیڑھ پن کا شکار ہو جائیں گے۔“
(مسند الإمام أحمد: 285/4؛ سنن أبي داود: 664؛ سنن النسائي: 812؛ سنن ابن ماجه: 997 مختصرًا، وسنده صحيح)
اسے امام ابن جارود رحمہ اللہ (316)، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1556) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (2161) نے ”صحیح “قرار دیا ہے۔