سوال:
کیا جلسہ استراحت والی حدیث حالت عذر یا بڑھاپے پر محمول ہے؟
جواب:
بعض لوگ جلسہ استراحت والی حدیث کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت اس وقت کیا، جب آپ بوڑھے ہو چکے تھے۔ یہ مفہوم صحابہ رضی اللہ عنہم اور اہل علم کے فہم کے خلاف ہے۔
علامہ علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی رحمہ اللہ (593ھ) لکھتے ہیں:
ما رواه محمول على حالة الكبر
”جلسہ استراحت کے ثبوت میں مروی روایات بڑھاپے پر محمول ہیں۔“
(الهداية: 110/1)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) لکھتے ہیں:
”یہ کہنا کہ (حدیث مالک بن حویرث) بڑھاپے پر محمول ہے، محتاج دلیل تاویل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو واپس جاتے ہوئے فرمایا تھا: ’میرے طریقے کے مطابق نماز پڑھنا۔‘ کوئی استثنائی بات نہیں کی، لہذا حدیث اس فعل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی پر واضح دلیل ہے۔“
(الدراية: 110/1)
❀ علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ (970ھ) لکھتے ہیں:
”رہی صحیح بخاری کی وہ روایت کہ جس میں ہے: سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ جب طاق رکعت میں ہوتے، تو (دوسرے سجدہ سے فارغ ہو کر) جب تک سیدھا نہ بیٹھ جاتے، کھڑے نہ ہوتے۔ یہ بڑھاپے پر محمول ہے، جیسا کہ ہدایہ میں لکھا ہے۔ اس کا رد یہ ہے کہ اسے بڑھاپے پر محمول کرنے کی کیا دلیل ہے؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو واپس جاتے ہوئے فرمایا تھا: ’میرے طریقے کے مطابق نماز پڑھنا۔‘ کوئی استثنا نہیں فرمائی۔ یوں یہ حدیث امام شافعی رحمہ اللہ کی دلیل بنتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اسے جواز پر محمول کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ شاید اسی لیے فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا: اختلاف افضلیت میں ہے، لہذا مذہب شافعی کی طرح اگر کوئی ایسے کر بھی لیتا ہے، تو حرج نہیں۔“
(البحر الرائق بشرح كنز الدقائق: 340/1)
❀ شارح ہدایہ، علامہ عینی رحمہ اللہ (855ھ) لکھتے ہیں:
”یہ تاویل قبول نہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر (تقریباً) تریسٹھ سال ہے اور اس عمر میں بیماری یا زخم وغیرہ کا عارضہ لاحق نہ ہو، تو کوئی بھی سیدھا اٹھنے سے قاصر نہیں رہتا۔“
(البناية شرح الهداية: 252/2)
❀ علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ (1353ھ) کہتے ہیں:
”علامہ طحاوی رحمہ اللہ کا یہ جواب دینا کہ یہ عذر کی بنا پر تھا، میرے نزدیک درست نہیں ہے۔“
(فيض الباري: 264/2)