سوال:
کیا جذامی کی میت کو جلانا جائز ہے؟
جواب:
ہر مسلمان میت کو دفن کرنا ضروری ہے۔ اسے جلانا بے حرمتی اور خلاف شرع ہے۔ یہ کفار کی پیروی ہے، کیونکہ مجوسی اور ہندو اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ انسانوں کو دفنانے کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسان کی۔ سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا، تو اللہ نے کوے کے ذریعے دفن کا طریقہ سکھایا۔
❀ فرمان باری تعالیٰ:
فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ
(5-المائدة:31)
اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔
اگر کسی کا کافر رشتہ دار فوت ہو جائے، تو اسے دفن کرنا ضروری ہے، جلانا جائز نہیں۔ سعودی علما کا فتویٰ ہے:
حرق جثث الموتى عمل غير جائز شرعا وهو من عمل الوثنيين والسنة ان الميت المسلم يغسل ويكفن ويصلى عليه ويدفن في المقبرة العامة للمسلمين لان حرمة المسلم ميتا كحرمته حيا واما غير المسلم فانه يدفن في حفرة بعيدا عن المجتمع حتى لا يتاذى به الناس ولا يحرق
مردوں کے اجسام کو جلانا شرعاً ناجائز ہے۔ یہ بت پرستوں کا طریقہ ہے۔ سنت یہ ہے کہ مسلمان میت کو غسل دیا جائے، کفن دیا جائے، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے، کیونکہ مردہ مسلمان کی حرمت زندہ کی طرح ہے۔ غیر مسلم کو علاقے سے دور گڑھے میں دفن کیا جائے تاکہ لوگ اذیت نہ پائیں، لیکن اسے جلایا نہ جائے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة، رقم الفتوى: 17513)
جذام، طاعون یا کرونا وائرس سے فوت ہونے والوں کو بھی دفن کیا جائے گا، البتہ حفاظتی کٹس اور سپرے استعمال کیے جائیں۔