🔹 اللہ تعالیٰ کی رحمت، شفاعت اور جہنم کی ہمیشہ کی سزا
سوال:
ایک عالم دین کا کہنا ہے:
اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے
قیامت کے دن شفاعت (سفارش) ضرور واقع ہوگی
آخرکار اللہ تعالیٰ جہنم کو خالی کر کے جنت کو بھر دے گا
حتیٰ کہ شرابی، زانی، بے نمازی وغیرہ بھی شفاعت کے ذریعے جنت میں داخل ہو جائیں گے
کیا یہ بات درست ہے؟
🔹 جواب:
جہنم کے ہمیشہ باقی رہنے کے متعلق اختلاف
اہلِ علم کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ:
آیا جہنم ہمیشہ باقی رہے گی یا
ایک طویل مدت کے بعد ختم کر دی جائے گی اور سب جنت میں داخل ہو جائیں گے
راقم الحروف کا رجحان:
قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ:
جہنم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باقی رہے گی
البتہ یہ بات بھی واضح رہے کہ:
اللہ تعالیٰ مالکِ کل ہے، اگر وہ چاہے تو کسی کافر کو بھی معاف کر سکتا ہے
لیکن ہم بندوں کو اس پر سوال کرنے کا حق نہیں
وہی سب سے زیادہ علم و حکمت والا ہے
🔹 جہنمیوں کا جہنم میں ہمیشہ رہنا
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں:
﴿فَأَمَّا ٱلَّذِينَ شَقُوا۟ فَفِى ٱلنَّارِ ۖ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌۭ وَشَهِيقٌ ﴿١٠٦﴾ خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ﴿١٠٧﴾
(سورہ ہود: آیت 106-107)
ترجمہ:
پس وہ لوگ جو بدبخت ہوں گے وہ آگ میں ہوں گے، ان کے لیے اس میں چیخ و پکار ہوگی۔
وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے، جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں، مگر جو تمہارا رب چاہے۔ بے شک تمہارا رب جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے:
آسمان و زمین فانی ہیں
لہٰذا جہنم بھی فانی ہوگی، کیونکہ جہنمی اتنی ہی مدت کے لیے رہیں گے جتنی آسمان و زمین قائم ہوں
لیکن یہ استدلال غلط ہے، کیونکہ:
🔹 قیامت کے بعد نئے آسمان و زمین ہوں گے
﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ ٱلْأَرْضُ غَيْرَ ٱلْأَرْضِ وَٱلسَّمَـٰوَٰتُ﴾
(سورہ ابراہیم: آیت 48)
ترجمہ:
جس دن زمین بدلی جائے گی کسی اور زمین سے، اور آسمان بھی بدل دیے جائیں گے۔
مطلب:
قیامت کے دن یہ دنیاوی آسمان و زمین نابود کر دیے جائیں گے
اور ان کی جگہ نئے آسمان و زمین پیدا کیے جائیں گے، جو ہمیشہ باقی رہیں گے
لہٰذا:
سورۃ ہود کی آیت میں جو "آسمان و زمین” کا ذکر ہے، وہ آخرت والے ہیں، دنیا والے نہیں
🔹 "إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ” کا مفہوم
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ "مگر جو تمہارا رب چاہے” کا مطلب ہے کہ:
اللہ تعالیٰ کسی وقت جہنم کو ختم کر دے گا
لیکن یہ بات درست نہیں
صحیح مفہوم یہ ہے:
اللہ تعالیٰ نے صرف یہ بات فرمائی کہ:
اگر وہ چاہے تو فنا بھی دے سکتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے
لیکن اس کی مشیت نے فیصلہ کیا ہے کہ:
جہنم بھی باقی رہے گی
جنت بھی باقی رہے گی
🔹 اہلِ جنت کے بارے میں بھی یہی الفاظ
﴿وَأَمَّا ٱلَّذِينَ سُعِدُوا۟ فَفِى ٱلْجَنَّةِ خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ ۖ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ﴾
(سورہ ہود: آیت 108)
ترجمہ:
اور جو خوش نصیب ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے، ہمیشہ اس میں رہنے والے، جب تک آسمان و زمین باقی ہیں، مگر جو تمہارا رب چاہے، (یہ) ایسا انعام ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگا۔
نتیجہ:
جنت اور جہنم کا ہمیشہ باقی رہنا اللہ تعالیٰ کی اٹل مشیت ہے
"الّا ما شاء ربک” کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے، مگر اس نے یہی چاہا ہے کہ یہ سب کچھ ہمیشہ باقی رہے
🔹 سورہ انعام کی آیت
﴿قَالَ ٱلنَّارُ مَثْوَىٰكُمْ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ﴾
(سورہ الانعام: آیت 128)
ترجمہ:
(اللہ فرمائے گا) آگ ہی تمہارا ٹھکانا ہے، ہمیشہ اسی میں رہو گے، مگر جو اللہ چاہے۔ بے شک تمہارا رب حکمت والا، علم والا ہے۔
تبصرہ:
یہ آیت بھی جہنم کے ختم ہونے کی دلیل نہیں بنتی
قرآن و سنت کے مجموعی دلائل بتاتے ہیں کہ:
کفار ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے
🔹 قیامت کے دن شفاعت کا مفہوم
کیا شفاعت قیامت کے دن لازمی طور پر ہوگی؟
اگر شفاعت سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن کچھ افراد کے حق میں شفاعت واقع ہوگی
تو یہ بات درست ہے، کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے:
﴿مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾
(سورۃ البقرہ: آیت 255)
ترجمہ:
کون ہے جو اس (اللہ) کے پاس شفاعت کرے بغیر اس کی اجازت کے؟
مطلب:
شفاعت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں
اور یہ شفاعت کفار و مشرکین کے لیے نہیں ہوگی
اگر مراد ہو کہ شفاعت "اللہ پر لازم” ہے؟
اگر کوئی یہ سمجھے کہ:
اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ جو بھی شفاعت کرے، اللہ تعالیٰ اس کی بات رد نہ کرے
تو یہ تصور بالکل باطل اور عقیدہ میں گمراہی ہے
اس لیے کہ:
اللہ تعالیٰ مطلق مختار و حاکم ہے
اس پر کوئی چیز لازم نہیں
کوئی اس پر جبر نہیں کر سکتا
وہی جو چاہے، کرتا ہے
🔹 شرابی، زانی اور کبیرہ گناہوں والے مؤمنین کی شفاعت
کیا کبیرہ گناہ کرنے والے مؤمنین جہنم سے نکلیں گے؟
جی ہاں، اس پر تفصیلی احادیث موجود ہیں
((ولا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن))
(صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب النہی بغیر اذنِ صاحب، حدیث: 2475)
ترجمہ:
زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، اور شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں ہوتا۔
تشریح:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ:
ایسے شخص کا ایمان کامل نہیں رہتا
لیکن وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا
مومن گناہ کے باوجود آخرکار جنت میں جائے گا
حدیث:
((وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ))
(اگرچہ وہ زنا کرے یا چوری کرے)
سیدنا ابوذرؓ نے جب تین مرتبہ سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ہر مرتبہ یہی فرمایا:
"اگرچہ وہ زنا کرے یا چوری کرے”
مطلب:
مومن اگر کبیرہ گناہ کر بھی لے:
تو وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا
یا تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا
یا سزا کے بعد جنت میں داخل کرے گا
🔹 احادیث کے درمیان تطبیق (مطابقت)
بعض احادیث میں مومن گناہگار کو جنتی کہا گیا، بعض میں ایمان سے خارج
محدثین نے دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق دی ہے:
پہلی قسم:
جن احادیث میں آیا ہے کہ:
"زنا کرنے والا، شراب پینے والا مؤمن نہیں ہوتا”
دوسری قسم:
جن میں کہا گیا کہ:
"وہ آخرکار جنت میں جائے گا”
تطبیق کا خلاصہ:
زانی، شرابی، چور وغیرہ کامل ایمان سے محروم ہوتے ہیں
مگر وہ کافر نہیں ہوتے
اگر ان کو سزا نہ ملی تو اللہ کی مغفرت سے بخش دیے جائیں گے
اگر سزا ملی، تو بعد میں جنت میں داخل کیے جائیں گے
🔹 دنیا میں حد (سزا) کا اطلاق اور اخروی معافی
سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے:
رسول اللہ ﷺ نے بیعت لیتے ہوئے فرمایا:
"تم شرک نہ کرو، زنا نہ کرو، چوری نہ کرو…”
اگر بیعت کرنے والا شخص اپنی بیعت پر قائم رہے:
تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے
اور اگر کوئی گناہ ہو گیا:
اور دنیا میں حد جاری ہو گئی (مثلاً زنا یا چوری پر)
تو وہ اس کے لیے کفارہ بن گیا
لیکن اگر گناہ چھپ گیا اور حد نہ لگی:
تو معاملہ اللہ کے سپرد ہے
اگر وہ چاہے تو معاف کر دے
اور چاہے تو سزا دے
نتیجہ:
زانی یا چور کافر نہیں ہوتے
کیونکہ اگر وہ کافر ہوتے:
تو ان کے لیے معافی کی کوئی امید ہی نہ ہوتی
🔹 کبیرہ گناہوں پر "کفر” کا اطلاق – تشریح و وضاحت
کبیرہ گناہ کفر ہے یا نہیں؟
بعض احادیث میں کبیرہ گناہوں پر "کفر” کا لفظ آیا ہے، جیسے:
((سبابُ المسلمِ فسوقٌ، وقتالُه كفرٌ))
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث: 64)
ترجمہ:
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔
لیکن قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا﴾
(سورہ الحجرات: آیت 9)
ترجمہ:
اور اگر دو جماعتیں مومنوں میں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔
تطبیق:
اس کا مطلب یہ ہے کہ:
قتال (لڑائی) کے باوجود وہ مومن ہی کہلائے
لہٰذا حدیث میں آیا "کفر” کا مطلب "کفر دون کفر” ہے
یعنی وہ کفر جو دائرۂ اسلام سے خارج نہ کرے
🔹 احادیث میں کفر کے الفاظ کا استعمال
مثال: عورتوں کی ناشکری
حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((تَكْفُرْنَ))
ترجمہ:
تم (عورتیں) ناشکری کرتی ہو۔
صحابیاتؓ نے پوچھا:
کیا ہم اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
تم اپنے شوہروں کی احسان فراموشی کرتی ہو۔
مطلب:
یہاں "کفر” کا مطلب اللہ کا انکار نہیں، بلکہ شوہر کی ناشکری ہے
مثال: غلام کا بھاگ جانا
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ:
بھاگنے والے غلام پر بھی "کافر” کا اطلاق کیا گیا ہے
(صحیح مسلم)
ظاہر ہے کہ:
غلام کا بھاگ جانا کفر باللہ نہیں ہے
یہ صرف عملی نافرمانی ہے
🔹 فتویٰ بازی میں احتیاط
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أيّما امرئٍ قال لأخيه: يا كافرُ، فقد باء بها أحدُهما، إن كان كما قال، وإلا رجعتْ عليه))
(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، حدیث: 60)
ترجمہ:
جو شخص اپنے بھائی کو "کافر” کہے، تو ان دونوں میں سے ایک ضرور کافر ہوگا۔
اگر وہ واقعی کافر ہے تو ٹھیک، ورنہ کہنے والا خود کافر ہو جائے گا۔
انتہائی حساس مسئلہ
اگر کوئی شخص کسی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے کسی مسلمان کو "کافر” کہتا ہے:
تو اس پر شدید خطرہ ہے
اگر وہ کافر نہ ہوا تو یہ الزام لگانے والا خود کفر میں جا پڑے گا
حدیث کے الفاظ:
"لأخیه” → یعنی "اپنے بھائی کو”
اس سے مراد ہے کہ وہ ظاہراً مسلمان ہے
🔹 ظاہر اور باطن میں فرق
دنیا میں فیصلہ "ظاہر” پر ہوتا ہے
ہو سکتا ہے کوئی شخص گناہ کرے اور ہم اسے کافر سمجھیں
لیکن اللہ تعالیٰ اس کے دل کا حال جانتا ہے
جیسے:
کوئی گناہگار مسلمان ہے، لیکن کفار کی صف میں زبردستی شامل کر دیا گیا ہو
ہم نے اسے کافر سمجھ کر قتل کر دیا
مگر اللہ تعالیٰ اس کے باطن کے ایمان کو جانتا ہے اور جنت عطا فرمائے گا
حدیث کی مثال: لشکر کا زمین میں دھنس جانا
آپ ﷺ نے فرمایا:
ایک لشکر کعبہ پر حملہ کرے گا، وہ زمین میں دھنسا دیا جائے گا
ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ نے عرض کیا:
ان میں تو کچھ زبردستی شامل لوگ بھی ہوں گے
آپ ﷺ نے فرمایا:
سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا
لیکن قیامت کے دن ہر شخص اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا
🔹 ترکِ نماز، کفر اور اخروی انجام
ترکِ نماز پر کفر کا اطلاق — ظاہری حکم
ترکِ نماز کے بارے میں بہت سی صحیح احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں
بعض احادیث میں ترکِ نماز کو کفر بھی کہا گیا ہے
لیکن واضح رہے:
یہ کفر دنیاوی اعتبار سے ہے، یعنی:
ہم اس شخص کو اسلامی برادری سے خارج سمجھتے ہیں
مگر یہ قطعی فیصلہ نہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک بھی کافر ہے
🔹 دل کی حالت صرف اللہ جانتا ہے
ترکِ نماز کرنے والے شخص میں دو امکانات ہو سکتے ہیں:
1. وہ نماز کو فرض مانتا ہے، مگر سستی کرتا ہے
تو وہ گناہگار مسلمان ہے
اگر اللہ چاہے تو معاف کر دے یا سزا دے کر جہنم سے نکال دے
2. وہ نماز کی فرضیت کا منکر ہے
تو وہ بلاشبہ کافر ہے
اور اس کے لیے ہمیشہ کی جہنم ہے
🔹 ہمیں حکم صرف ظاہر کے مطابق ہے
کیونکہ ہم دلوں کا حال نہیں جان سکتے
نہ ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ ہے کہ باطنی کیفیت معلوم کر سکیں
﴿نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾
(سورۃ التوبہ: 101)
ترجمہ:
ہم (اللہ تعالیٰ) ان کو جانتے ہیں۔
ترکِ نماز کی صورت میں دنیاوی حکم:
اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا:
ہم اسے مسلمان نہیں سمجھیں گے
اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی
اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہیں کیا جائے گا
لیکن:
اگر اس کے دل میں ایمان کا ذرہ بھی ہے:
تو اللہ تعالیٰ اسے سزا دے کر یا بغیر سزا کے معاف فرما سکتا ہے
🔹 رسول اللہ ﷺ کا عمل
جب آپ ﷺ کسی بستی پر حملے کا ارادہ فرماتے:
تو پہلے وہاں اذان کی آواز سنتے
اگر اذان سنائی دیتی → حملہ منسوخ کر دیتے
اگر اذان نہ سنتے → حملہ جاری رکھتے
مطلب:
اذان (نماز) کو اسلام کی ظاہری علامت بنایا گیا
🔹 باطنی ایمان کا حساب آخرت میں ہوگا
﴿لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ﴾
(سورہ الانبیاء: آیت 23)
ترجمہ:
اس (اللہ) سے اس کے کاموں کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا، اور وہی (بندے) پوچھے جائیں گے۔
نتیجہ:
ہمیں اس کے فیصلوں پر سوال کا کوئی حق نہیں
وہ جسے چاہے معاف کرے، جسے چاہے سزا دے
🔹 بے نمازی کا حکم: دنیا میں کافر، آخرت میں؟ اللہ جانتا ہے
اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ:
"میں نماز کو فرض مانتا ہوں، لیکن سستی سے ادا نہیں کرتا”
تب بھی:
ہمیں اس کے باطن کی کوئی خبر نہیں
ہو سکتا ہے وہ جھوٹ بول رہا ہو
ہو سکتا ہے وہ منافق ہو
لہٰذا:
ہم صرف ظاہر پر فیصلہ کریں گے
نماز پڑھنے والا → مسلمان
نماز چھوڑنے والا → اسلامی برادری سے خارج
🔹 آخرت میں فیصلے ظاہر پر نہیں بلکہ حقیقت پر ہوں گے
دنیا اور آخرت کے احکام میں فرق
دنیا میں:
فیصلہ صرف ظاہری علامات پر ہوتا ہے (مثلاً نماز)
آخرت میں:
فیصلہ ہوگا باطن اور اصل نیت و ایمان پر
مثال:
منافقین:
دنیا میں مسلمان سمجھے گئے
ان پر اسلامی احکام نافذ کیے گئے
لیکن آخرت میں ان کا انجام جہنم کے نچلے ترین درجے میں ہوگا
﴿إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْكِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا﴾
(سورۃ النساء: آیت 145)
ترجمہ:
بے شک منافق لوگ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے، اور تم ان کے لیے کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔
🔹 ترکِ نماز اور اخروی مغفرت کی دلیل
اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور مشیت
﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾
(سورۃ النساء: آیت 48)
ترجمہ:
بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا، اس کے علاوہ جو کچھ ہو، جس کے لیے چاہے، معاف کر دیتا ہے۔
حدیثِ قدسی:
((يا ابن آدم، إنك لو أتيتني بقراب الأرض خطايا، ثم لقيتني لا تشرك بي شيئا، لأتيتك بقرابها مغفرة))
(ترمذی، حدیث حسن صحیح)
ترجمہ:
اے ابنِ آدم! اگر تُو زمین بھر کر گناہ لے کر میرے پاس آئے، اور میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو میں تجھے زمین بھر کر مغفرت دے دوں گا۔
واضح پیغام:
اگر توحید پر قائم رہا جائے
تو باقی گناہ (بشمول ترکِ نماز) اللہ کی مشیت کے تحت معاف ہو سکتے ہیں
🔹 بے نمازی اور دیگر گناہگاروں کا جہنم سے نکلنا
صحیح احادیث کے مطابق:
کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو:
جہنم میں داخل ہوں گے
لیکن ان کے دل میں رائی کے دانے، جو کے دانے، یا ذرہ برابر ایمان ہوگا
اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
"انہیں جہنم سے نکال لو”
اور کچھ لوگ وہ ہوں گے جنہوں نے:
"کوئی بھی نیک عمل نہیں کیا ہوگا”
(مگر ایمان رکھتے ہوں گے)
انہیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور مشیت سے جہنم سے نکالے گا
🔹 ترکِ نماز پر کفر کا مفہوم
جب آپ ﷺ نے فرمایا:
﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَـٰعَةُ ٱلشَّـٰفِعِينَ﴾
(المدثر: آیت 48)
ترجمہ:
پس ان کے لیے سفارش کرنے والوں کی سفارش کوئی فائدہ نہ دے گی۔
اور پہلے کہا گیا:
﴿قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ ٱلْمُصَلِّينَ﴾
(المدثر: آیت 43)
ترجمہ:
(جہنمی کہیں گے) ہم نمازیوں میں سے نہ تھے۔
لیکن ساتھ ہی فرمایا:
﴿وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ﴾
(المدثر: آیت 46)
ترجمہ:
اور ہم قیامت کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے۔
تبصرہ:
قیامت کا انکار بذاتِ خود کفر ہے
اس لیے ان کو شفاعت فائدہ نہیں دے گی
اس سے واضح ہوا:
ترکِ نماز جہنم میں جانے کا سبب بن سکتا ہے
لیکن ہمیشہ جہنم میں رہنے کا سبب تب ہی ہوگا:
جب اس کے ساتھ کفر یا شرک بھی ہو
🔹 نماز ایمان کی علامت ہے
﴿وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمْ﴾
(سورۃ البقرہ: آیت 143)
ترجمہ:
اور اللہ تمہارے ایمان (نماز) کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔
مطلب:
نماز کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا
اس لیے ترکِ نماز پر دنیا میں کفر کا اطلاق صرف ظاہری علامت کی بنیاد پر ہے
🔹 آخری نتیجہ:
بے نمازی شخص دنیا میں اسلامی برادری سے خارج سمجھا جائے گا
لیکن اس کے دل میں اگر ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا:
تو اللہ تعالیٰ سزا دے کر یا بغیر سزا کے معاف فرما سکتا ہے
﴿لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ﴾
(الانبیاء: آیت 23)
ترجمہ:
وہ (اللہ) جو چاہے کرتا ہے، اس سے سوال نہیں ہوتا، اور ان (بندوں) سے سوال ہوگا۔
✅ مکمل خلاصہ:
دنیا میں نماز اسلام کی علامت ہے
جو نماز نہ پڑھے، ہم اسے مسلمان نہیں سمجھیں گے
مگر آخرت میں اصل فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا
وہ دلوں کے حال جانتا ہے، اور کسی کے دل میں ایمان ہو تو نجات دے سکتا ہے
ھٰذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
