سوال :
کیا بھینس کا دودھ اور اس کا گوشت حلال ہے؟ اس کے متعلق کوئی حدیث یا آیت تحریر کریں۔
جواب :
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اپنے بندوں پر ان گنت لاتعداد اور بے شمار انعامات ہیں۔ اس نے انسانوں کے لیے مختلف اقسام و انواع کی اشیاء پیدا کی ہیں جن سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن ان اشیاء کی حلت و حرمت کا اختیار اس نے اپنے پاس رکھا ہے۔ بعض اشیاء کے استعمال پر اس نے پابندی لگا دی ہے، تا کہ اس کے ذریعے وہ انسان کی آزمائش کرے اور کثیر اشیاء کے استعمال کی اجازت مرحمت فرمادی ہے۔ کتاب و سنت میں کئی اشیاء کے نام لے کر ان کی حلت بیان ہوئی ہے اور کئی اشیاء کے نام لے کر ان کی حرمت واضح کی گئی ہے اور پھر حلت و حرمت کی پہچان کے لیے قواعد و ضوابط بتا دیے ہیں۔ جن اشیاء سے خاموشی فرمائی ہے، وہ معاف ہیں۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أحل الله فى كتابه فهو حلال وما حرم فهو حرام وما سكت عنه فهو عفو فاقبلوا من الله عافيته فإن الله لم يكن نسيا ثم تلا هذه الآية: ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾
(دار قطنی 137/2 ح 2047، فتح الباری 13/266، تفسیر ابن کثیر 289/4 بتحقيق عبد الرزاق المهدى، قال السیوطی وأخرج ابن المنذر وابن أبي حاتم والبزار والطبراني وابن مردويه والبيهقي في سننه والحاكم وصححه عن أبي الدرداء رفع الحديث۔ الدر المنثور 468/5)
اللہ تعالیٰ نے جو چیز اپنی کتاب میں حلال کی وہ حلال ہے اور جو حرام کی وہ حرام ہے اور جس سے اس نے خاموشی اختیار کی وہ معاف ہے، لہذا اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی قبول کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ بھولنے والا نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: ”تیرا رب بھولنے والا نہیں ہے۔“
اس حدیث کی سند کو امام بزار نے صالح، امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔ (مستدرک 275/2 ح 3419) علامہ ہاشمی نے ایک مقام پر کہا: ”اسے امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔“ اور دوسرے مقام پر کہا: ”اسے امام بزار نے روایت کیا اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا، اس کی سند حسن ہے اور اس کے راویوں کی ثقاہت بیان کی گئی ہے۔“ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ (إغاثة المرام رقم 2 ص 14)
اس کی تائید ایک اور حدیث سے ہوتی ہے، جسے سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء؟ قال الحلال ما أحل الله فى كتابه والحرام ما حرم الله فى كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
(ابن ماجہ أبواب الأطعمة باب أكل الجبن والسمن ح 3367، ترمذی کتاب اللباس باب ما جاء في لبس الفراء ح 1726، المستدرک للحاکم 115/4 ج 7115، تهذيب الكمال في ترجمة سيف بن هارون 330/12، تعريف 300/3، العلل الكبير للترمذي 722/2، الضعفاء الكبير للعقيلي 274/2، علل الحديث 10/2 لابن أبي حاتم ح 1003)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور گورخر یا پوستین والے کپڑے کے بارے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس چیز سے اس نے سکوت کیا ہے وہ اس کی معاف کردہ چیزوں میں سے ہے۔“
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
كان أهل الجاهلية يأكلون أشياء ويتركون أشياء تقذرا فبعث الله نبيه صلى الله عليه وسلم وأنزل كتابه وأحل حلاله وحرم حرامه فما أحل فهو حلال وما حرم فهو حرام وما سكت عنه فهو عفو وتلا: ﴿قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ﴾ إلى آخر الآية
(ابو داود کتاب الأطعمة باب ما لم يذكر تحريمه ح 3800، المستدرک للحاکم وقال هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ووافقه الذهبي، تفسير ابن كثير 103/3 بتحقيق عبد الرزاق المهدى)
اہل جاہلیت بعض اشیاء کھاتے اور بعض سے نفرت کرتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور اپنی کتاب نازل کی اور اپنے حلال کو حلال اور اپنے حرام کو حرام قرار دیا۔ لہذا جس چیز کو اس نے حلال بنایا ہے وہ حلال ہے اور جسے حرام قرار دیا وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار کیا وہ معاف ہے۔ پھر قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی ”کہہ دیجیے جو چیز میری طرف وحی کی گئی ہے اس میں میں کسی کھانے والے پر جو وہ کھاتا ہے، حرام نہیں پایا“ آیت کے آخر تک۔
ابو ثعلبہ خشني رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله حد حدودا فلا تعتدوها وفرض لكم فرائض فلا تضيعوها وحرم أشياء فلا تنتهكوها وترك أشياء من غير نسيان من ربكم ولكن رحمة منه لكم فاقبلوها ولا تبحثوا فيها
(المستدرك للحاكم 115/4 ح 7114، دار قطنی 184/4 ح 4350)
بے شک اللہ تعالیٰ نے حدود مقرر فرما دی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور تمھارے لیے فرائض متعین کر دیے ہیں، انھیں ضائع نہ کرو اور کچھ اشیاء حرام کی ہیں ان کی حرمت پامال نہ کرو اور کچھ اشیاء چھوڑ دی ہیں، ان سے خاموشی اختیار کی ہے، یہ تمھارے رب کی طرف سے نسیان کی بنا پر نہیں، بلکہ اس کی طرف سے تم پر رحمت ہے، انھیں قبول کرو اور ان کے متعلق بحث نہ کرو۔
اس حدیث کو امام نووی نے حسن کہا ہے۔ (دیکھیں الأربعين مع الجواهر اللؤلؤية رقم 30 ص 284، الوافي في شرح الأربعين النووية ص 224، الأذكار للنووى ص 1300، كتاب التعريف في شرح الأربعين للمطوفي ص 227)
اسی طرح ابن حجر عسقلانی، ابو بکر السمعانی اور ابو الفتوح الطانی نے اپنی امالی میں اور حافظ عراقی نے اسے حسن کہا، بلکہ ابن اصلاح نے صحیح کہا ہے۔ (دیکھیں فتوحات الربانية على الأذكار النووية 365/7، الموافق في شرح الأربعين النووية ص 224، امام مکحول کا ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے سماع پر بحر کلام ہے اس کے لیے ملاحظہ کریں الفتوحات الربانية)
ان احادیث سے واضح ہو گیا کہ بعض اشیاء کی حرمت اور بعض کی حلت بالکل واضح فرما دی گئی اور کچھ اشیاء سے سکوت اختیار کیا گیا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر رحمت ہے۔ یہ سکوت اس لیے نہیں کہ اللہ کو نسیان ہو گیا، اللہ تعالیٰ تو بھول چوک اور نسیان سے منزہ و پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن اشیاء سے سکوت اختیار کیا ہے وہ حلال ہیں، انھیں قبول کرنا چاہیے، ان کے استعمال پر مواخذہ نہیں ہے۔ علامہ محمد بن عبد اللہ الدمیاطی رقمطراز ہیں:
أى لم ينزل حكمها على نبيه صلى الله عليه وسلم ”رحمة لكم“ أى لأحلكم يعني أنه لم يحرم تلك الأشياء فيعاتب على فعلها
(الجواهر اللؤلؤية ص 287)
”بعض اشیاء سے جو سکوت اختیار کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نازل نہیں کیا، اور تم پر رحمت کرتے ہوئے، اس کا مطلب ہے کہ اس نے ان اشیاء کو حرام نہیں بنایا کہ اس کے فعل پر فاعل کو سزا دی جائے۔“
”فلا تبحثوا عنها“ کے بارے میں لکھتے ہیں:
أى لا تفحصوا عن أحوالها ولا تفتشوا على أحكامها بل بالبراءة الأصلية (أيضا ص 287)
یعنی ان اشیاء سے سکوت وارد ہوا ہے، ان کے حالات کی چھان پھٹک نہ کرو اور ان کے احکام کی تفتیش نہ کرو، بلکہ براءۃ اصلیہ کے مطابق حکم لگاؤ۔
ڈاکٹر مصطفى الغباء اور ڈاکٹر یکی الدین مستو لکھتے ہیں:
وسكت عن أشياء أى لم يحكم فيها بوجوب أو حرمة فهي شرعا على الإباحة الأصلية
(الوافي ص 225)
اللہ تعالیٰ نے جن اشیاء سے سکوت اختیار کیا ہے، مطلب یہ کہ ان کے وجوب یا حرمت کا حکم نہیں فرمایا، وہ شرعاً اباحت اصلیہ پر ہیں۔
حافظ ابن رجب الد مشقی رقمطراز ہیں:
وأما المسكوت عنه فهو ما لم يذكر حكمه بتحليل ولا إيجاب ولا تحريم فيكون معفوا عنه لا يؤاخذ على فاعله وعلى هذا دلت هذه الأحاديث المذكورة هاهنا كحديث أبى ثعلبة وغيره
(جامع العلوم والحكم 163/2 مطبوعة مؤسسة الرسالة)
”جس چیز کے بارے میں شرع میں خاموشی وارد ہوئی ہے وہ ایسی چیز ہے جس کی حلت، ایجاب اور تحریم کا حکم ذکر نہیں ہوا، وہ معاف ہے، اس کے کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں اور اس بات پر مذکورہ احادیث دلالت کرتی ہیں جیسا کہ ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی احادیث ہیں۔“
معلوم ہوا کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے، جب تک کہ ان کی حرمت شرع میں وارد نہ ہو، البتہ عبادات میں اصل ممانعت ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ ان احادیث سے جو قاعدہ ماخوذ ہوتا ہے وہ قرآنی آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾
(البقرة: 29)
”اللہ وہ ہستی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمھارے لیے پیدا کیا۔“
علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
استدل به على أن الأصل فى الأشياء الإباحة إلا ما ورد الشرع بتحريمه
(الإكليل في استنباط التنزيل ص 15)
”اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے، الا یہ کہ شرع میں اس کی تحریم وارد ہوئی ہو۔“
(نیز دیکھیں: التفسير المنير 120/1، اللباب في علوم الكتاب 487/1، أحكام القرآن لابن العربي 13/1، أحكام القرآن لكيا الهراسي 8/1، تفسير القرطبي 171/1، تفسير رازي 15/2، تفسير القاسمي 282/1، تفسير فتح القدير 60/1، تفسير فتح البيان 89/10، تفسير النسفي 79/1، تفسير الكشاف 123/1، تفسير المراغي 76/1، تفسير القرآن الكريم للشيخ محمد بن صالح العثيمين 110/1، تفسير البحر المحيط 193/1، تفسير البيضاوي 48/1، التفسيرات الأحمدية 10، التحرير والتنوير لابن عاشور 375/1)
لہذا جب اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں بھینس کی حرمت بیان نہیں کی تو اور کون ہوتا ہے اس کو حرام قرار دینے والا؟ یہ اصلاً حلال و مباح ہے۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کی حلت و حرمت پہچاننے کا قاعدہ بھی بیان کر دیا ہے۔ ابو ثعلبہ الخشني رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل كل ذي ناب من السباع
(بخاری کتاب الذبائح والصید باب أكل كل ذي ناب من السباع ح 5530، مسلم کتاب الصید والذبائح باب تحريم أكل كل ذي ناب من السباع الخ ح 1932)
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر پھاڑ کر کھانے والے درندے کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔“
یہ حدیث جابر، خالد بن الولید، مقدام بن معدیکرب اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم سے بھی مسند احمد وغیرہ میں موجود ہے۔ ان احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ذي ناب“ جانوروں کو حرام قرار دیا ہے۔ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أراد بذي الناب ما يعدو بنابه على الناس وأموالهم مثل الذئب والأسد والكلب والفهد والنمر والدب والقرد ونحوها فهي وأمثالها وكذلك كل ذي مخلب من الطير كالعقاب والصقر والبازي ونحوها وسمى مخلب الطائر نابا لأنه يعدو أى يشق ويقطع
(شرح السنة 231/11، نیز دیکھیں حاشية سندي على النسائي 228/7، مجمع بحار الأنوار 411/1)
”ذی ناب سے مراد وہ جانور ہیں جو اپنی کھلیوں کے ساتھ لوگوں اور ان کے اموال پر حملہ کرتے ہیں، جیسے بھیڑیا، شیر، کتا، تیندوا، چیتا، ریچھ، بندر اور ان جیسے جانور حرام ہیں، اس طرح پرندوں میں سے پنجے کے ساتھ شکار کرنے والے پرندے، جیسے عقاب، باز اور دوسرے ان جیسے، ان پرندوں کو مخلب اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ پاؤں کے ساتھ شکار کو پھاڑتے اور قطع کرتے ہیں۔“
بھینس ذی ناب (کھلی والے درندوں) میں سے نہیں ہے، لہذا یہ حلال ہے۔ بھینس کی حلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس پر اسی طرح زکوٰة واجب ہے جیسے گائے پر۔ امام ابن المنذر رحمہ اللہ (التوفی 318ھ) رقمطراز ہیں:
وأجمعوا على أن حكم الحواميس حكم البقر
(الإجماع کتاب الزكاة رقم 91 ص 12)
”اس بات پر ائمہ کا اجماع ہے کہ زکوٰة میں بھینس گائے کے حکم میں ہے۔“
امام ابن قدامہ المقدسي رحمہ اللہ قول الجواميس كثيرها من البقر کی شرح میں لکھتے ہیں:
لا خلاف فى هذا نعلمه وقال ابن المنذر اجمع كل من يحفظ عنه من أهل العلم على هذا وأن الحواميس من أنواع البقر كما أن البخاتي من أنواع الإبل
(المغني 34/4-35، نیز دیکھی مجموع الفتاوى لابن تيمية 35/25)
”ہمارے علم میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے کہ اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ بھینس گائے کی انواع میں سے ہے، جیسے اونٹوں کی نوع سے بختی اونٹ ہے۔“
اور اہل لغت کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ بھینس گائے کی انواع میں سے ہے، یہ حسب ذیل ہے:
① علامہ ابن المنظور (المتوفی 711ھ) رقمطراز ہیں:
الجاموس نوع من البقر دخيل وجمعه حواميس فارسي معرب وهو بالعجمية كواميس(لسان العرب 354/2)
② علامہ زبیدی فرماتے ہیں: الحاموس نوع من البقر (تاج العروس 231/8)
③ علامہ ابن سیدہ (المتوفی 458ھ) فرماتے ہیں: الحاموس نوع من البقر
④ لغت کی معروف (کتاب المعجم الوسيط ص 134) میں ہے: الجاموس حيوان أهلي من فصيلة البقر
⑤ علامہ جافظ رقمطراز ہیں:
والبقر على قسمين إحداهما الحواميس إلا ما كان بقر الوحش
(كتاب الحيوان 163/3)
”گائے کی دو قسمیں ہیں، ان میں ایک بھینس ہے، سوائے جنگلی گائے کے۔“
⑥ علامہ دمیری فرماتے ہیں:
البقر الأهلي اسم جنس يقع على الذكر والأنثى
(حياة الحيوان 208/1)
”گھریلو گائے اسم جنس ہے جو مذکر اور مؤنث دونوں پر واقع ہوتا ہے۔“
پھر آگے جا کر لکھتے ہیں:
وهن أجناسه الحواميس وهى أكثرها لبنا أعظمها أجساما
(حياة الحيوان 209/1)
”اس کی کئی جنسیں ہیں، ان میں سے ایک بھینس بھی ہے، یہ سب سے زیادہ دودھ دیتی ہے اور اس کا جسم سب سے بڑا ہوتا ہے۔“
پھر مزید لکھتے ہیں: ”حكمه كالبقر“ اس کا حکم گائے جیسا ہے۔ (حياة الحيوان 124/3)
جب ائمہ لغات و احادیث نے بھینس کو گائے کی نوع و جنس میں سے ذکر کیا ہے تو انھوں نے اس کی زکوٰة کا حکم گائے جیسا ہی بیان کیا ہے۔ امام ابو عبید قاسم بن سلام (المتوفی 224ھ) فرماتے ہیں:
فإذا خالطت البقر حواميس فسواء واحدة وفي ذلك آثار
(كتاب الأموال ص 385)
جب گائے کے ساتھ بھینس مل جائے تو زکوٰة کا طریقہ ایک ہی ہے، اس بارے میں آثار مروی ہیں۔
پھر اس کے بعد خلیفہ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے بارے میں اثر لائے ہیں کہ انھوں نے اپنے گورنروں کو لکھا:
أن توعى صدقة الحواميس كما توعى صدقة البقر
”جس طرح گائے کی زکوٰة لی جاتی ہے اسی طرح بھینس کی بھی زکوٰة وصول کی جائے۔“
مزید لکھتے ہیں:
وكذلك يروى عن أشعث عن الحسن
(كتاب الأموال ص 385)
”اشعت کے طریقے سے حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح روایت بیان کی جاتی ہے۔“
اس کے بعد امام مالک سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا:
الحواميس والبقر سواء
بھینس اور گائے برابر ہیں (حکم میں، جیسے بختی اور عربی اونٹ اور بھیڑ اور بکری برابر ہیں)۔
(كتاب الأموال 385، نیز دیکھیں المدونة الكبرى 311/1، الموطأ لمالك 291-293/1، سنن عبد الرزاق 24/4، المحلى 2/6، كتاب الحجة على أهل المدينة 181/1، المبسوط 183-188/2، زرقاني على الموطأ 58/2، المنتقى 133/2، الشرح الممتع 49/6، فقه السنة 321/1 کا حاشیہ 425/1 ط أخرى، الفقه على المذاهب الأربعة 719/1)
عکرمہ بن خالد کہتے ہیں:
استعملت على صدقات عكل فلقيت أشياخا ممن صدق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وسألتهم والحواميس تعد فى الصدقة كالبقر
(ابن ابی شیبہ 433/2-434 ح 10738 باب من قال فيما دون ثلاثين من البقر زكاة)
”مجھے عک قبیلے کی زکوٰة وصول کرنے پر عامل بنایا گیا، میں وہاں ان شیوخ سے ملا جو عہد رسالت میں زکوٰة دیتے تھے، میں نے ان سے (بھینس کے متعلق) سوال کیا (تو انھوں نے جواب دیا) بھینس گائیوں کی طرح زکوٰة میں شمار کی جاتی تھی۔“
یہ روایت اس بات پر صریح دلیل ہے کہ عہد رسالت میں جو لوگ صدقات اور زکوٰة جمع کرتے تھے انھوں نے بھینس کو گائے ہی کی طرح سمجھا ہے۔ امام محمد بن سیرین کہتے ہیں:
اشتكى رجل فوصف له لبن الحواميس فبعث إلى عبد الرحمن بن أبى بكرة أن ابعث إلينا بحاموسة فبعث إليه بتسع مائة حاموسة فقال إنما أردت واحدة
(سير أعلام النبلاء 412/4 ، أخرى 350/5)
ایک آدمی بیمار ہو گیا تو اسے (بطور علاج) بھینس کا دودھ بتایا گیا، اس نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کو پیغام بھیجا کہ ہماری طرف بھینس بھیج دو، تو انھوں نے 9 سو بھینسیں بھیج دیں، تو اس نے کہا میں نے تو صرف ایک کا ارادہ کیا تھا۔
عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی وفات 96ھ میں ہوئی ہے۔ معلوم ہوا کہ عہد صحابہ میں بھینس موجود تھی، اس کا دودھ پیا جاتا تھا اور زکوٰة کی وصولی کی جاتی تھی۔ مذکورہ بالا دلائل سے یہ باتیں واضح ہو گئیں:
① بھینس گائے کی طرح ہے، اس پر اجماع ہے۔
② بھینس کی زکوٰة پر بھی اتفاق و اجماع ہے۔
اور جب امت مسلمہ کسی مسئلہ پر متفق ہو تو وہ گمراہی نہیں ہو سکتی۔
(المستدرك للحاكم 116/1 ح 398-399، تخريج المشكاة للشيخ الألباني 135/1، هداية الرواة)
زکوٰة پاک اور طیب مال ہی سے لی جاتی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيها الناس إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا
(مسلم کتاب الزكاة باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها ح 1015)
”اے لوگو! یقیناً اللہ پاک ہے اور پاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔“
جب بھینس کی زکوٰة پر عہد صحابہ سے عمل چلا آ رہا ہے، خیر القرون میں اس کی زکوٰة وصول کی جاتی تھی۔ خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ اس کی زکوٰة وصول کرتے تھے اور یہ مسئلہ اتفاقی ہے تو زکوٰة طیب و پاکیزہ اور حلال مال ہی سے دی جاتی ہے، حرام مال تو اللہ تعالیٰ قبول ہی نہیں کرتے۔
معلوم ہوا کہ بھینس حلال و طیب جانور ہے، اس کی حلت میں کسی مسلم کو شک و شبہ نہیں ہے۔
مفتی محمد شفیع صاحب سورۃ المائدة کی تفسیر میں ﴿أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ﴾ کی بحث میں لفظ ”انعام“ کے بارے لکھتے ہیں: لفظ ”انعام “نہم کی جمع ہے، پالتو جانور جیسے اونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے اونٹ، بکری، گائے بھینس وغیرہ کو حلال کر دیا ہے، ان کو شرعی قاعدہ کے موافق ذبح کر کے کھا سکتے ہیں۔“
(معارف القرآن 13/3)
ہماری مذکورہ بحث سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ بھینس کئی طرح سے حلال جانور ہے، اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے، دودھ پیا جا سکتا ہے، یہ درندہ نہیں، لہذا اس میں حرمت کا کوئی پہلو بھی نہیں۔ اس کا گائے کی نوع میں سے ہونا اور زکوٰة پر اتفاق ہے۔ کوئی شخص بھی جو عقل سلیم کا مالک ہے، وہ اس کی حلت سے انکار نہیں کر سکتا۔ کتاب و سنت کی نصوص پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ جو لوگ حدیث دشمنی میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ حدیث رسول کو پست اور آرائے رجال کو بلند کرنے کا عزم کیے بیٹھے ہیں اور لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں بھینس کی حلت ثابت نہیں ہوتی، ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا ہی ہو سکتی ہے۔ اگر قرآن و حدیث سے اس کی حلت نہیں نکلتی تو پھر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون سی دلیل ہے جو اس کو حلال بنانی ہو۔