کیا بچوں کو مسجد لانا جائز ہے؟ ضعیف روایت کا رد اور صحیح احادیث کی وضاحت
تحریر: حافظ ندیم ظہیر

توضيح الأحكام العلماء

سوال:

ایک مسجد میں لکھا ہوا تھا کہ بچوں کو ہمراہ نہ لائیں ، پھر کسی حدیث کا حوالہ بھی تحریر تھا۔ کیا کسی حدیث میں بچوں کو مسجد لانے سے منع کیا گیا ہے؟ جواب دے کر اللہ سے اجر پائیں۔
(شہید اللہ ، مانسہرہ)

جواب:

کسی صحیح حدیث میں بچوں کو مسجد لانے سے منع نہیں کیا گیا ، تاہم جس روایت میں ممانعت ہے وہ سند کے اعتبار سے سخت ضعیف ہے۔

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’حدثنا أحمد بن يوسف السلمي : حدثنا مسلم بن إبراهيم : حدثنا الحارث بن نبهان : حدثنا عتبة بن يقظان، عن أبي سعيد، عن مكحول ، عن وائلة بن الأسفع أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ((جنبوا مساجدكم صيانكم ))‘‘

’’اپنی مساجد کو اپنے بچوں سے محفوظ رکھو۔‘‘
(سنن ابن ماجه: 570)

یہ روایت کئی وجہ سے ضعیف ہے:

①عتبہ بن یقطان ضعیف ہے۔ (التقريب: 4444)

②الحارث بن نبھان متروک ہے۔ (التقريب: 1051)

③ابوسعید الشامی مجہول ہے۔ (التقريب: 8131)

تنبیه:

امام طبرانی رحمہ اللہ نے مسند الشامین (4 / 307) میں وضاحت کی ہے کہ یہ ابوسعید عبد القدوس بن حبیب ہے اور وہ متروک ہے۔ دیکھئے دیوان الضعفاء (۲۵۸۶) وغیرہ

اس روایت کا ایک شاہد السنن الکبریٰ للبيهقي(103/10) میں ہے، لیکن وہ بھی علاء بن کثیر الشامی متروک (التقريب: 5254) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ اس کے برعکس صحیح احادیث کی رُو سے ثابت ہے کہ ہر عمر کے بچوں کو مسجد لایا جاسکتا ہے۔

سیدنا ابو قتادہ رضی الله عنه فرماتے ہیں : ایک دفعہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی نواسی) امامہ بنت ابی العاص بن ربیع کو اٹھائے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے ۔

(صحیح مسلم، 543 رقم المسلسل: 1215)

امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بائیں الفاظ باب قائم کیا ہے: ’’إذخال الصبيان المساجد‘‘ بچوں کو مساجد میں لے جانے کا بیان۔

(سنن النسائي قبل الحديث: 712)

❀ایک طویل حدیث ہے کہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنه نے فرمایا: ہم خود (عاشوراء کا) روزہ رکھتے اور اگر اللہ چاہتا تو اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم ( ان بچوں کے ہمراہ ) مسجد کی طرف جاتے تو ان کے لیے اُون کا کھلونا بنا لیتے۔ جب ان میں سے کوئی افطار کے قریب کھانے کے لیے روتا تو ہم ( اس کی توجہ بٹانے کے لیے ) وہ (کھلونا) اسے دے دیتے۔

(صحیح مسلم: 136 / 1136)

یہ حدیث دلیل ہے کہ عہد نبوت میں صحابیات و صحابہ کرام رضی الله عنه اپنے بچوں کو اپنے ہمراہ مسجد لے کے جاتے تھے۔

اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماں کے ساتھ (آئے ہوئے) بچے کا رونا سنتے ، جبکہ آپ نماز میں ہوتے تو ہلکی سورت، یعنی اسے مختصر کر لیتے (یا پھر کوئی) چھوٹی سورت پڑھتے تھے۔

(صحیح مسلم: 191 / 470)

❀رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور جب وہ دس برس کے ہوں تو انھیں نماز چھوڑنے پر مارو اور ان کے بستر تو جدا کردو‘‘

(سنن أبي داود: 494، سنن الترمذي: 407 وسنده صحيح)

خلاصة التحقيق:

درج بالا تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جس روایت میں بچوں کو مساجد میں لے جانے کی ممانعت ہے وہ سند کے اعتبار سے شدید ضعیف ہے اور دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ بچوں کو مسجد میں اپنے ساتھ لے کر جانا مسنون ہے تاکہ ان کی تربیت ہو اور انھیں نماز کی اہمیت معلوم ہو سکے ۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے