کیا بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانا حرام ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلی شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 180

بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانے کے بارے میں شرعی حکم

سوال:

کیا بغیر وضو قرآن مجید کو چھونا حرام ہے؟

بعض کتابوں میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانا حرام ہے، اور اس کے ثبوت میں سورۂ واقعہ کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے:

﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ (الواقعہ: ۷۹)
ترجمہ: ’’اسے نہیں چھوتے مگر پاک لوگ‘‘۔

بعض مترجمین اور اہلِ علم نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ "بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانا حرام ہے۔” کیا واقعی اس آیت کا یہی مفہوم ہے؟ یا اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ "اسے نہیں چھوتے مگر پاک لوگ”؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

چاروں ائمہ کرام کا موقف:

امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ علیہم کا موقف یہ ہے کہ بغیر وضو قرآن مجید کو چھونا جائز نہیں ہے۔
◈ ان کے نزدیک سورۃ الواقعہ کی آیت: "لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ” کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو صرف وہی لوگ چھو سکتے ہیں جو پاک ہوں، یعنی جن پر وضو ہو۔
◈ پس ان کے مطابق، بے وضو شخص کے لیے قرآن کو ہاتھ لگانا ممنوع اور حرام ہے۔

امام داؤد ظاہری اور علامہ ابن حزم کا موقف:

امام داؤد ظاہری اور علامہ ابن حزم رحمہم اللہ کا موقف اس سے مختلف ہے۔
◈ ان دونوں کے نزدیک بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانا جائز ہے۔
◈ وہ آیت کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں کہ:

"لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ” کا تعلق قرآن کے اس نسخے سے ہے جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔
"پاک لوگ” سے مراد فرشتے ہیں، جو اسے چھوتے ہیں۔

◈ ان حضرات کی نظر میں یہ آیت اسی مفہوم کی حامل ہے جیسا کہ سورہ عبس میں فرمایا گیا:

﴿كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ﴿١١﴾ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ ﴿١٢﴾ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ ﴿١٣﴾ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ ﴿١٤﴾ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ ﴿١٥﴾ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴿١٦﴾ (عبس)

یعنی: یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے، پس جو چاہے، اس سے نصیحت حاصل کرے، وہ معزز صحیفوں میں ہے، جو بلند و پاکیزہ ہیں، فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں، جو بڑے باعزت اور نیک ہیں۔

راجح اور قوی موقف:

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ اس حوالے سے فرماتے ہیں:

"اگر آیت کو اس کے اصل مفہوم (خبر) پر لیا جائے تو پہلا معنی مراد ہے کہ قرآن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور ‘المطہرون’ سے مراد فرشتے ہیں۔
لیکن اگر اس آیت کو نہی کے مفہوم میں لیا جائے، باوجود اس کے کہ یہ خبر کی صورت میں ہے، تو یہ معنی عام لوگوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اور یہی رائے زیادہ بہتر اور مقدم ہے۔”

◈ امام رازی مزید فرماتے ہیں:

"کیونکہ نبی کریم ﷺ سے یہ روایت ہے کہ آپ نے عمرو بن حزم کو لکھا تھا:
‘لَا يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ’
(قرآن کو کوئی نہیں چھوئے مگر جو پاک ہو)۔
لہٰذا لازم ہے کہ آیت کی تفسیر نبی ﷺ کے اس فرمان کے مطابق ہو، کیونکہ آیت میں اس معنی کی گنجائش موجود ہے۔”
(تفسیر رازی)

امام باجی رحمہ اللہ نے بھی "شرح الموطأ” میں ان دونوں تفسیری امکانات کو تفصیل سے ذکر کیا ہے، لہٰذا جو چاہے وہ اس کی طرف رجوع کرے۔

حوالہ:

(محدث، جلد: 8، شمارہ: 7، رمضان 1359ھ / نومبر 1940ء)

نتیجہ:

◈ راجح اور مضبوط رائے یہی ہے کہ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔
◈ اس کی تائید قرآن کی آیت، نبی کریم ﷺ کے فرمان، اور جمہور فقہاء کے اقوال سے ہوتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1