کیا ایک غیر ماہر شخص دعوت و تبلیغ کر سکتا ہے؟
سوال:
ایک ایسا شخص جو دین اسلام سے تعلق رکھتا ہے اور قرآن مجید، اس کا ترجمہ و تشریح، صحاح ستہ اور دیگر دینی لٹریچر کا مطالعہ کرتا ہے، لیکن عربی گرامر (صرف و نحو) اور اسماء الرجال کے فن سے واقف نہیں ہے، اور اسے دعوت و تبلیغ کا شوق بھی ہے — کیا ایسا شخص تفسیر ابن کثیر اور صحاح ستہ کی روشنی میں دعوت و تبلیغ کر سکتا ہے؟ جبکہ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ ایسا شخص جو اسماء الرجال کے فن سے واقف نہ ہو، وہ اس حدیث کا مصداق بن سکتا ہے:
((من كذب على متعمدا فليتبوا مقعده من النار.))
(صحیح بخاری و مسلم)
کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں بیان کی گئی صورت کے مطابق:
◈ ایسا شخص دعوت و تبلیغ کر سکتا ہے کیونکہ دعوت و تبلیغ کے لیے اسماء الرجال کے فن سے واقف ہونا ضروری نہیں۔
◈ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں دعوت و تبلیغ کے لیے ایسی کوئی شرط یا حد بندی مقرر نہیں کی گئی۔
◈ تھوڑا بہت علم رکھنے والا بھی دین کی تبلیغ کر سکتا ہے۔
قرآن مجید کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ ۗ وَلَوْ ءَامَنَ أَهْلُ ٱلْكِتَـٰبِ لَكَانَ خَيْرًۭا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ﴾
(آل عمران: 110)
“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہلِ کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا، ان میں کچھ مومن ہیں مگر اکثر فاسق ہیں۔”
اس آیت کی وضاحت:
◈ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو بہترین امت قرار دیا ہے کیونکہ یہ امت لوگوں کو نیکی کا حکم دیتی اور برائی سے روکتی ہے۔
◈ یہ فضیلت صرف اس وجہ سے دی گئی کہ اس امت میں دعوت و تبلیغ کا عمل موجود ہے۔
◈ یہ واضح حقیقت ہے کہ امت کے تمام افراد عالم نہیں ہو سکتے۔
◈ اکثر لوگ دین کا علم مکمل طور پر نہیں رکھتے بلکہ جہالت میں مبتلا ہیں۔
◈ تبلیغ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔
◈ یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے عالم یا ماہر ہونا ضروری نہیں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
حدیث نمبر 1:
((عن عبدالله بن عمررضی اللہ عنه ان النبی صلی الله عليه وسلم قال بلغواعنى ولوآية——الخ))
(صحیح البخاری، کتاب احاديث الانبياء، رقم الحديث: ٣٤٦١)
“سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے جو سنے اسے آگے پہنچا دو خواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو۔”
حدیث نمبر 2:
((الاليبلغ الشاهد الغائب اوكماقال عليه السلام.))
(صحیح البخاری، کتاب المغازی، رقم الحديث: ٤٤۰٦)
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ میری بات ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔”
وضاحت:
◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظیم کوششوں کی بدولت دین اسلام دنیا بھر میں پھیل گیا۔
◈ صحابہ کرام جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات سنتے تو اسے فوراً بغیر تاخیر کے دوسروں تک پہنچا دیتے۔
◈ آج کے دور میں مسلمانوں کی پستی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ انہوں نے تبلیغ کے فریضے کو چھوڑ دیا ہے۔
◈ جو تھوڑا بہت تبلیغ کرتا ہے، اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، جو کہ افسوس ناک ہے۔
قرآن سے ایک اور دلیل:
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
(آل عمران: 104)
“تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتی رہے، نیکی کا حکم دیتی رہے اور برائی سے روکتی رہے۔ یہی لوگ کامیاب ہیں۔”
خلاصہ و نتیجہ:
◈ دعوت و تبلیغ کے لیے اسماء الرجال کا جاننا شرط نہیں۔
◈ قرآن و حدیث کی روشنی میں تھوڑا علم رکھنے والا بھی تبلیغ کر سکتا ہے۔
◈ نیکی کی بات کو دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے، جیسا کہ واضح احادیث میں بیان ہوا۔
◈ جو شخص علم کے مطابق سچائی کے ساتھ بات پہنچاتا ہے، وہ "من كذب علی متعمداً…” والی وعید کا مصداق نہیں بنتا، کیونکہ وہ جھوٹ بولنے والا نہیں بلکہ سچائی کو عام کرنے والا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب