سوال:
کیا بستیوں میں جمعہ پڑھا جا سکتا ہے؟
جواب:
قریہ کا اطلاق شہر پر بھی ہوتا ہے اور دیہات پر بھی۔ بستیوں میں جمعہ بالا جماع جائز ہے۔ مسلمان قرآن کریم کے عموم کے مطابق ہر جگہ جمعہ کے قائل ہیں، وہ بستی ہو، شہر ہو، صحرا ہو یا جنگل۔ جہاں بھی تین یا اس سے زائد مسلمان ہوں، وہ جمعہ ادا کریں۔ یہ قید لگانا کہ جمعہ صرف بڑے شہر میں ہوتا ہے، بستیوں میں جمعہ نہیں ہوتا، بے دلیل موقف ہے۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
إن أول جمعة جمعت بعد جمعة فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فى مسجد عبد القيس بجواثى من البحرين.
”مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ مسجد عبد قیس میں ادا کیا گیا، جو بحرین کی ایک بستی میں واقع ہے۔“
(صحيح البخاري: 892)
❀ اس حدیث کے تحت حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں:
هذا دليل على أن الجمعة تقام فى القرى، وهو قول مالك والشافعي وأحمد بن حنبل، وقال أبو حنيفة: لا تقام إلا فى الأمصار.
”یہ حدیث دلیل ہے کہ بستیوں میں بھی جمعہ ادا کیا جائے گا۔ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جمعہ صرف شہروں میں ہی ادا ہو سکتا ہے۔“
(كشف المُشكل من حديث الصحيحين: 420/2)
❀ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خط کے جواب میں فرمایا:
جمعوا حيث كنتم.
”جہاں بھی ہوں، جمعہ ادا کریں۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 101/2، وسنده صحيح)
یہ قول عام ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق جمعہ ہر جگہ ادا کیا جا سکتا ہے، شہر کی قید نہیں۔ اس اثر میں شہر کی قید لگانا بلا دلیل ہے۔
تنبیہ :
❀ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لا تشريق ولا جمعة إلا فى مصر جامع.
”نماز عید اور نماز جمعہ صرف ان آبادیوں میں فرض ہے، جن کے باشندے مستقل رہائش پذیر ہوں۔“
(معرفة السنن والآثار للبيهقي: 6330، وسنده صحيح)
قرآن کریم کے عموم اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق ہر جگہ جمعہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل علم کے اقوال کا یہ مطلب نہیں کہ بستیوں میں جمعہ یا عید ادا نہیں ہو سکتی، بلکہ اہل علم نے اس کے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔
① حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
الأشبه بأقاويل السلف وأفعالهم فى إقامة الجمعة فى القرى التى أهلها أهل قرار ليسوا بأهل عمود يتنقلون إن ذلك مراد على رضي الله عنه.
”سلف کے اقوال و افعال سے درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان بستیوں میں جمعہ قائم کیا جائے گا، جہاں لوگ مقیم ہوں اور ان میں نہیں، جہاں لوگ مسافر ہوں اور انہوں نے وہاں سے کوچ کر جانا ہو۔ علی رضی اللہ عنہ کی یہی مراد ہے۔“
(المهذب في اختصار السنن الكبير: 1109/3)
② علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ) فرماتے ہیں:
إنه أراد بذلك القرى التى فيها وال من جهة الإمام، فيكون مراده أنه لا جمعة إلا بإذن الإمام فى مكان له فيه نائب يقيم الجمعة بإذنه، وبذلك فسره أحمد فى رواية عنه.
”اس سے مراد وہ بستیاں ہیں، جن میں کوئی والی ہوتا ہے، جسے امام نے مقرر کیا ہوتا ہے، تو ان کی مراد یہ ہوگی کہ جمعہ صرف امام کی اجازت سے ہوتا ہے، ایسی جگہ میں، جہاں اس کا کوئی نائب ہو، وہ اس کی اجازت سے جمعہ پڑھائے گا۔ امام احمد نے یہی تفسیر کی ہے۔“
(فتح الباري لابن رجب: 140/8)