کیا اہل حق کو گمراہوں سے مباہلہ کرنا جائز ہے؟ مکمل رہنمائی
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، ج2، ص71

مباہلہ کرنے کا حکم: کیا اہلِ حق مسلمانوں کو گمراہوں سے مباہلہ کرنا جائز ہے؟

سوال

کیا صحیح العقیدہ مسلمانوں کا اہلِ بدعت اور گمراہوں کے ساتھ مباہلہ کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول اللہ، أما بعد!

قرآن مجید سے استدلال

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾
… سورة آل عمران

*پھر آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو شخص جھگڑا کرے تو کہہ دیں: آؤ! ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے، ہم اپنی عورتیں بلائیں اور تم اپنی، اور ہم اپنے اشخاص بلائیں اور تم اپنے اشخاص، پھر ہم مباہلہ کریں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔*
(آل عمران: 61)

شانِ نزول

اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس نجران سے دو عیسائی: عاقب اور سید آئے تاکہ آپ ﷺ سے مباہلہ کریں۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:

"مباہلہ نہ کرنا، اللہ کی قسم! اگر وہ نبی ہوا تو ہم مباہلے کے بعد کبھی فلاح نہ پا سکیں گے اور نہ ہماری نسل باقی رہے گی۔”
(دیکھئے: صحیح بخاری 4380، ملخصًا)

تفاسیر سے شواہد

  • سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:*اگر وہ لوگ نبی ﷺ سے مباہلہ کے لئے باہر نکلتے تو واپسی پر اپنے گھر والوں اور مال میں سے کچھ بھی نہ پاتے یعنی سب کچھ تباہ ہو جاتا۔*

    (تفسیر عبدالرزاق 129/1، ح 411، و سندہ صحیح؛ تفسیر ابن جریر الطبری، ج3، ص212، و سندہ صحیح)

  • (مسند الإمام أحمد، 248/1، ح 2225)
  • ثقہ تابعی قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا:*مجھے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ اہلِ نجران کے ساتھ مباہلہ کے لیے نکلے لیکن جب انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو ڈر گئے اور مباہلے کے بغیر ہی واپس چلے گئے۔*

    (تفسیر عبدالرزاق 129/1، ح 209، و سندہ صحیح؛ تفسیر طبری 212/3، و سندہ صحیح)

اہلِ بیت کی شرکت

اس آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا:

«اللهم هولاء اهلی»
*”اے اللہ! یہ میرے اہل ہیں۔”*
(صحیح مسلم: 2404، دارالسلام: 6220)

مباہلہ کی تعریف

مباہلہ کا مطلب یہ ہے کہ:

  • دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ:

*”اے اللہ! جو جھوٹا اور ناحق پر ہے، اسے ہلاک کر دے، تباہ و برباد کر دے، اور اس پر لعنت فرما۔”*

قرآن کی دوسری آیت اور اس کی وضاحت

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ﴾
… سورة الأحزاب

*”اللہ تو یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہلِ بیت! تم سے پلیدی کو دور کر دے۔”*(الأحزاب: 33)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

«نزلت فی نساء النبی صلی الله علیه وسلم خاصة»
*”یہ آیت خاص طور پر نبی ﷺ کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔”*

ثقہ تابعی عکرمہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

«من شاء باهلته: انها نزلت فی ازواج النبی صلی الله علیه وسلم»
*”جو چاہے، میں اس بات پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں کہ یہ آیت نبی ﷺ کی بیویوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔”*
(تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر ابن کثیر 169/5-170، و سندہ حسن؛ دوسرا نسخہ 153/11؛ تاریخ دمشق لابن عساکر 111/73، و سندہ حسن)

شرعی ضابطے اور احتیاط

مندرجہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر شرعی ضرورت ہو تو:

  • صحیح العقیدہ، صالح، اور معتبر مسلمان اہلِ بدعت، گمراہوں اور کفار کے خلاف مباہلہ کر سکتے ہیں۔
  • البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ:
    • نبی ﷺ کا مباہلہ ایسا ہوتا ہے جس میں مخالف کی تباہی یقینی ہوتی ہے۔
    • جبکہ امتیوں کے مباہلے میں ایسا کوئی حتمی نتیجہ متوقع نہیں ہوتا، لہٰذا احتیاط بہتر ہے۔

ایک تاریخی واقعہ

محدث برہان الدین البقاعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

*ہمارے استاد حافظ ابن حجر العسقلانی کا ابن الامین نامی شخص سے ابن عربی کے بارے میں مباہلہ ہوا۔*

  • ابن الامین نے کہا:*”اے اللہ! اگر ابن عربی گمراہی پر ہے تو تو مجھ پر لعنت فرما۔”*
  • حافظ ابن حجر نے کہا:*”اے اللہ! اگر ابن عربی ہدایت پر ہے تو تو مجھ پر لعنت فرما۔”*

نتیجہ:

  • وہ شخص چند ماہ بعد رات کو اندھا ہو کر مر گیا۔
  • واقعہ ۷۹۷ھ کے ذوالقعدہ میں پیش آیا جبکہ مباہلہ رمضان میں ہوا تھا۔

(تنبیه الغبی، ص 136-137؛ علمی مقالات، ج2، ص 470-471)

خلاصہ تحقیق

  • حتی الوسع مباہلہ سے گریز کرنا بہتر ہے۔
  • فقہی و اجتہادی اختلافات پر مباہلہ جائز نہیں۔
  • اگر اشد ضرورت ہو تو:
    • کفر و اسلام کا اختلاف ہو،
    • عقیدہ واضح، صریح اور سلف صالحین کے اجماعی اصول پر ہو،
    • تب صحیح العقیدہ، صالح، سمجھدار مسلمان اہل بدعت اور گمراہوں کے خلاف مباہلہ کر سکتے ہیں۔
  • لیکن یاد رہے:قطعی نتیجہ صرف نبی کے مباہلے کا یقینی ہوتا ہے، امتیوں کے مباہلے کا نتیجہ یقینی نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1