کیا اہل بدعت اور گمراہوں سے مباہلہ جائز ہے؟ شرعی دلائل
ماخوذ : فتاوی علمیہ جلد 3، متفرق مسائل – صفحہ 274

سوال

کیا صحیح العقیدہ مسلمانوں کا اہل بدعت اور گمراہوں سے مباہلہ کرنا جائز ہے؟ (ایک سائل)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَن حاجَّكَ فيهِ مِن بَعدِ ما جاءَكَ مِنَ العِلمِ فَقُل تَعالَوا نَدعُ أَبناءَنا وَأَبناءَكُم وَنِساءَنا وَنِساءَكُم وَأَنفُسَنا وَأَنفُسَكُم ثُمَّ نَبتَهِل فَنَجعَل لَعنَتَ اللَّهِ عَلَى الكـٰذِبينَ ﴿٦١﴾… سورةآل عمران

“پھر آپ کے پاس علم آجانے کے بعد جو شخص جھگڑا کرے تو کہہ دیں: آؤ! ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹے بلاؤ، ہم اپنی عورتیں بلائیں اور تم اپنی عورتیں بلاؤ، ہم اپنی جانیں بلائیں اور تم اپنی جانیں بلاؤ۔ پھر ہم مباہلہ کریں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔”
(آل عمران: 61)

اس آیت کریمہ کا پس منظر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجران سے دو عیسائی عاقب اور سید مباہلہ کے لیے آئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مباہلہ نہ کرنا! اللہ کی قسم! اگر وہ نبی ہوا تو ہم مباہلے کے بعد کبھی فلاح نہیں پائیں گے اور نہ ہی ہماری نسل باقی رہے گی۔
(دیکھئے: صحیح بخاری 4380 ملخصاً)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"اگر وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کرنے کے لیے باہر نکلتے تو واپسی پر اپنے گھر والوں اور مال میں سے کچھ بھی نہ پاتے، یعنی سب کچھ تباہ ہوجاتا۔”
(تفسیر عبدالرزاق 1/129 ح411، سندہ صحیح، تفسیر ابن جریر الطبری ج3 ص212، سندہ صحیح، نیز دیکھئے: مسند الامام احمد 1/248 ح2225)

تابعین کا قول

مشہور ثقہ تابعی قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"مجھے پتا چلا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل نجران (کے عیسائیوں) سے مباہلہ کرنے کے لیے نکلے، پھر جب انہوں (عیسائیوں) نے آپ کو دیکھا تو ڈر گئے، اور وہ مباہلے کے بغیر ہی واپس چلے گئے۔”
(تفسیر عبدالرزاق 1/129 ح209، سندہ صحیح، تفسیر طبری 3/212، سندہ صحیح)

اہل بیت کے ساتھ مباہلہ

اس آیت کی تشریح میں یہ بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدنا) علی (بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ)، (سیدہ) فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، (سیدنا) حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور (سیدنا) حسین (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا:
**”اللهم هؤلاء أهلي”**
**”اے اللہ! یہ میرے اہل ہیں”**
(صحیح مسلم: 2404، دارالسلام: 6220)

مباہلہ کی شرعی حیثیت

ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اگر شرعی ضرورت پیش آجائے تو صحیح العقیدہ (اور قابل اعتماد صالح) مسلمانوں کا کفار کے خلاف مباہلہ کرنا جائز ہے۔

مباہلہ کا مفہوم:
دو فریق جمع ہوکر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ:
**”اے اللہ! جو ناحق پر اور جھوٹا ہے، اسے ہلاک کردے، تباہ و برباد کردے اور اس پر لعنت بھیج۔”**

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ …﴿٣٣﴾… سورةالاحزاب

**”اللہ تو یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہل بیت! تم سے پلیدی کو دور کردے”**
(الاحزاب: 33)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تشریح

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
**”نَزَلَتْ فِي نِسَاء النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. خَاصَّة”**
**”یہ (آیت) خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں نازل ہوئی۔”**

اس روایت کے راوی، مشہور ثقہ تابعی عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
**”مَنْ شاءَ بَاهَلْتُهُ أنّها نزلتْ في شأنِ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”**
**”جو چاہے میں اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کو تیار ہوں کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج (بیویوں) کے بارے میں نازل ہوئی۔”**
(تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر ابن کثیر 5/169-170، سندہ حسن، دوسرا نسخہ 11/153، تاریخ دمشق لا بن عساکر 73/111، سندہ حسن، ترجمہ اُم المومنین اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، قلت: وفی تاریخ دمشق "زیدالنحوی” والصواب: یزید النحوی)

اُمتیوں کا مباہلہ

اس اثر سے معلوم ہوا کہ اگر شرعی ضرورت ہو تو صحیح العقیدہ اور صالح و قابل اعتماد مسلمان یا مسلمانوں کا اہل بدعت، گمراہوں اور کفار کے خلاف مباہلہ جائز ہے۔
لیکن یاد رہے کہ صرف نبی کا مباہلہ ایسا ہے کہ مقابلے میں آنے والے ہر شخص کی تباہی و بربادی یقینی ہے۔ جبکہ اُمتیوں کے مباہلے کا نتیجہ اور انجام یقینی نہیں ہوتا، لہٰذا بہتر ہے کہ مباہلہ نہ کیا جائے۔

محدثین کا واقعہ

محدث برہان الدین البقاعی نے ذکر کیا:
ہمارے استاذ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ابن الامین نامی ایک شخص سے ابن عربی کے بارے میں مباہلہ ہوا۔ اس شخص نے کہا:
**”اے اللہ! اگر ابن عربی گمراہی پر ہے تو تُو مجھ پر لعنت فرما۔”**
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
**”اے اللہ! اگر ابن عربی ہدایت پر ہے تو تُو مجھ پر لعنت فرما۔”**
اس شخص کا مباہلے کے چند مہینے بعد رات کو اندھا ہو کر انتقال ہوگیا۔ یہ واقعہ 797ھ کو ذوالقعدہ میں ہوا اور مباہلہ تقریباً دو مہینے پہلے رمضان میں ہوا تھا۔
(تنبیہ الغبی ص136-137، علمی مقالات ج2 ص470-471)

خلاصۃ التحقیق

◈ حتی الوسع مباہلہ سے گریز کرنا چاہیے۔
◈ فقہی و اجتہادی مسائل کی وجہ سے مسلمانوں کا آپس میں مباہلہ کرنا جائز نہیں ہے۔
◈ دلیل کے ساتھ فریق مخالف کو سمجھانا چاہیے۔
◈ اگر اشد ضرورت ہو تو کفرو اسلام کے اختلاف اور صریح و اجماعی، سلف صالحین کے متفقہ عقیدے پر صحیح العقیدہ نیک اور سمجھدار اشخاص، کٹر متبدعین و گمراہوں کے خلاف مباہلہ کر سکتے ہیں۔
◈ یاد رکھیں کہ قطعی نتیجہ صرف نبی کے مباہلے کا ہی ہوتا تھا۔ باقی اُمتیوں کے مباہلے کا نتیجہ اور انجام یقینی نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔

(8 دسمبر 2009)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1