کیا اکثریت حق پر ہونے کی دلیل ہے قرآن و سنت کی روشنی میں حقیقت
تحریر: ابوالقاسم نوید شوکت

کیا اکثریت حق پر ہونے کی دلیل ہے؟

بعض لوگ بدعات و خرافات کو پھیلانے کے لیے دن رات کوشش کر رہے ہیں اور جب انھیں کوئی دلیل نہیں ملتی تو سادہ لوح عوام کو پھنسانے کے لیے یہ بات کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہماری اکثریت ہے کہ یا یہ کہ اتنے لوگ سارے غلط ہیں؟ حالانکہ کسی بات کو جانچنے کے لیے کہ وہ حق ہے یا نہیں اس کا معیار قرآن وحدیث ہے، پس جو بات قرآن وسنت کی کسوٹی پر پوری نہ اترے تو وہ باطل ہے، خواہ ایسے لوگوں کی اکثریت ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عموماً حق والوں کی جماعت ہمیشہ تھوڑی ہی رہی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
(و ان تطع اكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله)

🌿(الانعام : ١١٦)
’’اور اگر تو ان لوگوں میں سے اکثر کا کہنا مانے جو زمین میں ہیں تو وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔‘‘
سیدنا عوف بن مالک رضی الله عنه سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة فواحدة فى الجنة وسبعون في النار ، وافترقت النصارى على ينتين وسبعين فرقة فإحدى وسبعون في النار، وواحدة في الجنة ، والذي نفس محمد بيده لتفترقن أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، واحدة فى الجنة و ثنتان وسبعون في النار)) قيل يا رسول الله! من هم؟قال: ((الجماعة))۔

’’یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے ، ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور ستر جہنم میں ۔ اور عیسائی بہتر (۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئے ، ان میں سے ایک جنت میں اور اکہتر (ا۷) جہنم میں جائیں گے۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! میری امت ضرور بضر ور تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی۔ ان میں سے ایک گروہ جنت میں اور بہتر (۷۲) جہنم میں جائیں گے ۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: جماعة‘‘

🌿(سنن ابن ماجه ۳۹۹۲ وهو حديث حسن)

🌸سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا:

إن الجماعة ما وافق طاعة الله۔

🌿(مسند الشاميين للطبراني ص ۱۳۸ ح ۲۲۰ وسنده حسن)

’’جماعت وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کے مطابق ہو۔‘‘
🌸امام ابو عثمان اسماعیل بن عبد الرحمان الصابونی (المتوفی ۴۴۹ھ) نے کہا:

وأنا بفضل الله عزوجل – متبع لآثارهم مستضيء ، بأنوارهم ، ناصح إخواني و أصحابي ألا يزيغوا عن منارهم ولا يتبعوا غير أقوالهم ولا يشتغلوا بهذا المحدثات من البدع التي اشتهرت فيما بين المسلمين وظهرت وانتشرت ولو جرت واحدة منها على لسان واحد في عصر أولئك الأئمة لهجروه ويدعوه وكذبوه و أصابوه بكل سوء ومكروه ولا يغرن إخوانى – حفظهم الله كثرة أهل البدع ووفور عددهم، فإن ذلك من أمارات اقتراب الساعة، إذ الرسول المصطفى صلى الله عليه وسلم قال: ((إن من علامات الساعة واقترابها أن يقل العلم ويكثر الجهل)) والعلم هو السنة والجهل هو بدعة۔

🌿(عقيدة السلف وأصحاب الحديث ص ٣١٦)

اور میں اللہ عزوجل کے فضل سے ان (سلف صالحین) کے آثار کی پیروی کرنے والا ہوں اور ان کے انوار سے روشنی حاصل کرنے والا ہوں۔ میں اپنے بھائیوں اور ساتھیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان (سلف صالحین) کی علامتوں سے نہ ہٹیں اور ان کے اقوال کے علاوہ کسی کی پیروی نہ کریں اور وہ ان بدعات میں مشغول نہ ہوں جو مسلمانوں کے درمیان پھیلی ہوئی ہیں اور (یہ بدعات) جو نمایاں ہیں اور پھیلی ہوئی ہیں، اگر ان (بدعات) میں سے کوئی ایک بھی کسی کی زبان پر جاری ہوتی ان ائمہ کے دور میں تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور اسے بدعتی قرار دے دیتے اور اسے جھٹلا دیتے اور اسے کہتے اور میرے بھائی! (اللہ ان کی حفاظت فرمائے) اہل بدعت کی کثرت اور ان کی زیادہ تعداد دھو کے میں نہ ڈال دے، کیونکہ یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم کم ہو جائے گا اور جہالت زیادہ ہو جائے گی ۔‘‘ اور علم وہ سنت ہے اور جہالت وہ بدعت ہے۔

🌸امام ابو شامہ (المتوفی ۶۶۵ ھ ) نے کہا:

وحيث جاء الأمر بلزوم الجماعة فالمراد به لزوم الحق واتباعه وإن كان المتمسك بالحق قليلا والمخالف له كثيرا لان الحق هو الذي كانت عليه الجماعة الأولى من النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابه رضی الله عنه ولا نظر إلى كثرة أهل الباطل بعدهم۔

🌿(الباعث على انكار البدع والحوادث ص ۲۰ ، دوسرا نسخه ص ٢٤)

جماعت کو لازم پکڑنے کا جو حکم آیا ہے تو اس سے مراد حق کو لازم پکڑنا اور اس کی پیروی کرنا ہے۔ اگر چہ حق کو پکڑنے والے کم ہی ہوں اور مخالف زیادہ ہوں، کیونکہ حق وہ ہے جس پر پہلی جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی الله عنه میں سے تھی، ان کے بعد اہل باطل کی اکثریت کی طرف نہ دیکھے۔

🌸امام ابن قیم (المتوفی ۷۵۱ ) نے کہا:
واعلم أن الإجماع والحجة والسواد الأعظم هو العالم صاحب الحق وإن كان وحده وإن خالفه أهل الأرض۔

🌿(اعلام الموقعين ج ٣ ص ٣٥٨)

’’جان لو! بے شک اجماع اور حجت اور سواد اعظم وہ عالم ہے جو حق والا ہو، اگر چہ وہ اکیلا ہی ہو اور ساری زمین والے اس کے مخالف ہوں ۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کام کو لوگوں کی اکثریت کرے اور اس کی دلیل قرآن وسنت میں نہ ہو تو محض اکثریت سے مستحسن نہیں بن جائے گا، بلکہ وغیرہ مسنون ہی کہلائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بدعات و خرافات سے بچائے اور قرآن وسنت کو سلف وصالحین کے منہج پر سمجھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے