کیا کسی آدمی کا آنا باعثِ برکت ہو سکتا ہے؟
سوال:
عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ "آپ کا آنا ہمارے لیے باعثِ برکت ہے” یا "برکت ہمارے پاس آ گئی ہے”۔ کیا ایسی بات کہنا درست ہے؟ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عام طور پر جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ "آپ کا آنا ہمارے لیے باعثِ برکت ہے”، تو ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ "برکت” استعمال کرنے میں مراد ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کے آنے کی بدولت ہمیں خیر و بھلائی حاصل ہوئی۔
لہٰذا انسان کی طرف برکت کی نسبت کرنا جائز ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہونے کے واقعے میں ہوا۔ جب تیمم کی آیت نازل ہوئی تو حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«مَا ِهیَ بِاَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ يَا آلَ اَبِیْ بَکْرٍ»
(صحیح البخاري، التیمم، باب: ۱، ح:۳۳۴ وصحیح مسلم، الحیض، باب التیمم، ح:۳۶۷)
"اے آل ابی بکر! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔”
برکت کے اسباب:
طلبِ برکت دو قسم کی چیزوں سے ہوتی ہے:
1. شرعی معلوم امر کے ساتھ برکت طلب کرنا:
جیسے قرآن کریم، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿وَهـذا كِتـبٌ أَنزَلنـهُ مُبارَكٌ﴾
…﴿٩٢﴾… سورة الأنعام
"اور یہ کتاب (قرآن مجید) جسے ہم نے نازل کیا ہے بابرکت ہے۔”
قرآن کی برکت درج ذیل طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے:
◈ جو شخص اس کتاب کو اپنا لے اور اس کے ذریعے جہاد کرے، اسے فتح حاصل ہوتی ہے۔
◈ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے ذریعے بہت سی قوموں کو شرک سے نجات دی۔
◈ ایک حرف پر دس نیکیوں کا وعدہ ہے۔
◈ انسان کی کوشش اور وقت میں برکت پیدا ہوتی ہے۔
2. حسی معلوم امر کے ساتھ برکت طلب کرنا:
جیسے علم، یا کسی انسان کے علم اور اس کی دعوتِ خیر کے ذریعے برکت حاصل ہونا۔
جیسا کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اے آل ابی بکر! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔”
کیونکہ اللہ تعالیٰ بعض افراد کے ذریعے وہ کام لے لیتے ہیں جو دوسرے افراد کے ذریعے نہیں ہوتے۔
باطل اور موہوم برکت:
برکت کی کچھ جھوٹی اور باطل صورتیں بھی ہیں، جیسے:
◈ بعض دجال قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں میت (جسے وہ ولی سمجھتے ہیں) نے تم پر اپنی برکت نازل کی ہے۔
◈ ایسی برکت کا کوئی حقیقت پر مبنی اثر نہیں ہوتا۔
◈ بعض اوقات شیطان ایسے لوگوں کی خدمت کرتا ہے، جس کے باعث کچھ محسوساتی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔
◈ یہ صورت حال ایک بڑا فتنہ بن سکتی ہے۔
صحیح اور باطل برکت کی پہچان:
کسی بھی برکت کی حقیقت معلوم کرنے کا طریقہ:
◈ اگر وہ شخص اللہ کے ولی، متقی، پرہیزگار، سنت کا پابند اور بدعت سے اجتناب کرنے والا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیر و برکت کے آثار ظاہر کر سکتا ہے۔
◈ لیکن اگر وہ شخص کتاب و سنت کا مخالف ہو یا باطل کی طرف دعوت دینے والا ہو، تو ایسی برکت موہوم ہوتی ہے اور شیطان بھی اس کے فتنہ کو بڑھا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب