سوال :
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟
مدلل بیان کریں۔ کیا اس روایت کو بہیقی ،سبکی ، ابن حجر عسقلانی ، ہیشمی اور سیوطی وغیر ہم نے صحیح قرار دیا ہے؟
الجواب :
یه روايت
”الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون.“
مسند ابی یعلٰی الموصلی (۶/ ۱۴۷ ح ۳۴۲۵) اور حیاۃ الانبیاء اللبہیقی (ح ۲ من طریق ابی یعلیٰ) میں درج ذیل سند کے ساتھ موجود ہے:
’’يحيى بن أبي بكير : حدثنا المستلم بن سعيد عن الحجاج عن ثابت البناني عن أنس بن مالك‘‘
اس سند میں حجاج راوی غیر منسوب ہے، اس کی ولدیت یا نسب معلوم نہیں اور حافظ ذہبی نے فرمایا:
’’نكرة . ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه‘‘
مجہول ہے، میرے علم کے مطابق مستلم بن سعید کے علاوہ کسی نے اس سے روایت نہیں کی ، پس وہ (مستلم ) اس سے منکر خبر لایا ہے .
(میزان الاعتدال ۴۲۰/۱ ت۱۷۲۷، وقال الذہبی : ”حجاج بن الاسود وهو خطاً من الذهبي والصواب : ”حجاج من غیر ” ابن الاسود)
اگر کوئی آدمی حافظ ابن حجر کے حوالے سے کہے کہ حجاج سے مراد حجاج بن ابی زیاد الاسود البصری ہے تو عرض ہے کہ یہ تعین کئی وجہ سے غلط ہے:
۱۔ حافظ ذہبی جو کہ بقول ابن حجر ’’من أهل الاستقراء التام في نقد الرجال“ تھے۔
(نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر مع شرح الملاعلی قاری ص ۷۳۶)
وہ حجاج بن ابی زیاد الاسود اسملی کو اچھی طرح پہچانتے تھے، جیسا کہ انھوں نے خود فرمایا:
”بصري صدوق … و كان من الصلحاء و ثقه ابن معين . مات بضع و أربعين ومائة“
(سیر اعلام النبلا ۷۶/۷۰)
معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک حجاج دو ہیں :
➊ ابن ابی زیاد الاسود زق العسل ، صدوق ۔
➋ دوم نامعلوم، مجہول۔
۲۔ مستلم بن سعید سے اس روایت کی کسی صحیح سند میں حجاج کے بعد ”بن الاسود“ کی صراحت ثابت نہیں اور حسن بن قتیبہ المدائنی ( متروک مجروح ، ضعفہ الجمہور ) کی جس روایت میں یہ صراحت آئی ہے، وہ مردود و باطل ہے۔
حسن بن قتیبہ متروک و ھالک کی روایت مسند البزار، الفوائد لتمام الرازی ، الکامل لابن عدی، حیاۃ الانبیاء للبیہقی اور تاریخ دمشق لابن عساکر میں موجود ہے۔
(دیکھئے الصحیحہ الالبانی ۱۸۷/۲ ۶۲۱)
اگر کوئی کہے کہ تہذیب الکمال میں مستلم بن سعید کے شیوخ میں حجاج بن ابی زیاد الاسود کا ذکر کیا گیا ہے، تو عرض ہے کہ ذہبی کے اختلاف مذکور کے بعد یہ ذکر نا قابل حجت ہے ۔ جو لوگ حجاج ( مجہول ) کو ضرور بالضرور ابن الاسود ثابت کرنے پر بضد ہیں، انھیں چاہیے کہ اس کا ثبوت صحیح سند سے پیش کریں۔
فائده : المستلم بن سعيد عن حجاج عن ثابت والی روایت اخبار اصفهان لابی نعیم الاصبہانی (۸۳/۲) میں موجود ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور الفاظ درج ذیل ہیں:
”الأنبياء في قبورهم يصلون “
یعنی اس میں ’’احیاء “ کا لفظ ہی نہیں ہے۔
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ مذکورہ عجیب وغریب روایت بلحاظ سند صحیح نہیں ، لہذا محمد عباس رضوی بریلوی کا اپنی کتاب ”واللہ آپ زندہ ہیں“ میں اوراق کے اوراق لکھنا چنداں مفید نہیں ہے۔
امام بیہقی کا اس روایت کو صحیح کہنا ان کی کتاب سے ثابت نہیں اور حافظ ابن حجر کی نقل منقطع و بے سند ہے۔ خود حافظ ابن حجر سے اس روایت کو صحیح قرار دینا ثابت نہیں اور سبکی کا ذہبی کے مقابلے میں کوئی مقام نہیں ہے۔
ہیشمی کا اس روایت کے راویوں کو ثقہ قرار دینا حجاج مجہول کی وجہ سے غلط ہے اور سیوطی متاخرین میں سے تھے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت اصول حدیث و اسماء الرجال کی وجہ سے صحیح نہیں اور اس کے تمام شواہد بھی ضعیف و مردود ہیں۔ اس باب میں صرف صحیح مسلم کی وہ حدیث ثابت ہے جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (معراج کی رات ) موسیؑ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ خاص معجزہ ہے اور اس سے عام استدلال محل نظر ہے۔ واللہ اعلم
انبیائے کرام کی برزخی زندگی (حیاۃ الانبیاء) کے لئے دیکھئے میری کتاب:
تحقیقی مقالات ( ج اص ۲۶۱۹)