کیا امام کے پیچھے قرآت کرنے والے کے بارے میں کوئی وعید آئی ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا امام کے پیچھے قرآت کرنے والے کے بارے میں کوئی وعید آئی ہے؟

جواب:

اس بارے میں کوئی وعید ثابت نہیں۔ جتنی روایات پیش کی جاتی ہیں، سب کی سب ضعیف و غیر ثابت ہیں، ملاحظہ ہو۔
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
ليت الذى يقرأ خلف الإمام مليء فوه ترابا
”کاش کہ جو امام کے پیچھے قرآت کرے، اس کے منہ میں مٹی بھر دی جائے۔“
(شرح معانی الآثار للطحاوی: 1310)
اس اثر کی سند ضعیف ہے۔
① ابو اسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔
② حدیج بن معاویہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہیں، نیز اس کا ابو اسحاق سے قبل از اختلاط روایت کرنا ثابت نہیں۔
③ اس اثر کی ایک اور سند بھی ہے۔
(شرح معانی الآثار للطحاوی: 1311)
یہ سند بھی ضعیف ہے۔ اس میں ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔
اگر اس اثر کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس میں مقتدی کو سورت فاتحہ سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ قرآت سے روکا گیا ہے۔ قرآت سے مراد جہری نمازوں میں فاتحہ کے مابعد قرآت ہے۔
❀ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
ليت فى فم الذى يقرأ خلف الإمام حجرا
”کاش کہ جو امام کے پیچھے قرآت کرے، اس کے منہ میں پتھر دیا جائے۔“
(موطأ الإمام محمد، ص 98)
① سند جھوٹی ہے۔ منقطع ہے۔
① صاحب کتاب محمد بن حسن شیبانی ”کذاب “ہیں۔
② محمد بن عجلان صغار تابعین میں سے ہیں، ان کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ثابت نہیں۔
③ اس میں فاتحہ کا ذکر نہیں۔ قرآت کا ذکر ہے، اس سے جہری نمازوں میں فاتحہ کے مابعد قرآت مراد ہو سکتی ہے۔
④ یزید بن شریک تیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قرآت کے بارے میں سوال کیا، فرمایا: آپ قرآت کیجیے۔ میں نے عرض کیا: اگرچہ میں آپ کے پیچھے (مقتدی) ہوں؟ فرمایا: جی ہاں، اگرچہ آپ میری اقتدا میں ہوں اور میں قرآت کر رہا ہوں۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 3748، شرح معانی الآثار: 218/1، وسنده صحيح)
❀ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
وددت أن الذى يقرأ خلف الإمام فى فيه جمرة
”کاش کہ جو امام کے پیچھے قرآت کرے، اس کے منہ میں انگارہ دیا جائے۔“
(موطأ الإمام محمد، ص 98)
سند جھوٹی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے مرسل اور ضعیف قرار دیا ہے۔
(جزء القراءة خلف الإمام، ص 13)
صاحب کتاب محمد بن حسن شیبانی ”کذاب “ہیں۔
② بعض ولد سعد مبہم و نامعلوم ہیں۔
③ اس میں فاتحہ کا ذکر نہیں۔

فائدہ:

اس بارے میں مرفوع حدیث بے اصل ہے۔
(التعليق المُمجّد لعبد الحي الحنفي، ص 101)
❀ علامہ عبدالحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ (1304ھ) فرماتے ہیں:
إنه لم يرد فى حديث مرفوع صحيح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام، وكل ما ذكروه مرفوعا فيه، إما لا أصل له، وإما لا يصح
”کسی صحیح مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کی ممانعت وارد نہیں ہوئی۔ اس سلسلہ میں جتنی بھی مرفوع روایات فقہا نے ذکر کی ہیں، وہ یا تو بے اصل ہیں یا غیر ثابت۔“
(التعليق المُمَجَّد، ص 101، حاشية: 1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے