سوال
کیا امامت کروانے والا شخص تنخواہ لے سکتا ہے؟ ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ابن حبان میں امامت کی تنخواہ سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ کیا یہ حدیث واقعی موجود ہے؟ اگر ہے تو براہ کرم سند سے آگاہ فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کے بارے میں میری سمجھ کے مطابق امامت کروانے والا شخص تنخواہ لے سکتا ہے۔ غالباً حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی تھا یا پھر میں نے کسی اور اہل حدیث کے فتوے میں یہ بات دیکھی ہے، البتہ اس وقت مکمل طور پر یاد نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ:
◄ مسلمان پر نماز پڑھنا فرض ہے، لیکن نماز پڑھانا فرض نہیں ہے۔
◄ اگر کوئی شخص اپنا ذاتی کام کاج چھوڑ کر جماعت کی مرضی کے مطابق باقاعدگی سے امامت کے فرائض انجام دیتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے گزر بسر کا انتظام کیسے ہوگا؟
◄ ورنہ وہ شخص تو اپنے کام کاج میں مصروف رہے گا اور کسی بھی مسجد میں جا کر نماز فرض ادا کرسکتا ہے۔
◄ لیکن امامت کی صورت میں اسے پانچوں وقت کی نمازوں کے لیے پابند بننا پڑتا ہے، جس کا اثر لازمی طور پر اس کے ذاتی کاروبار پر پڑے گا۔
◄ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے ذاتی کام چھوڑ کر امامت کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو اس کی ضروریات پوری کرنے کا انتظام ہونا چاہیے۔
◄ اسی لیے تنخواہ لینے میں اس پر کوئی گناہ نہیں۔
جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جس کا حوالہ مولوی صاحب نے دیا ہے کہ ابن حبان میں امامت کی تنخواہ سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے، تو وہ مجھے نہیں ملی۔ میں نے اس حدیث کو موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان میں متعلقہ مقامات پر دیکھا ہے لیکن مجھے وہ نظر نہیں آئی۔
والله أعلم
اگر مولوی صاحب اس کتاب کے باب وغیرہ کا واضح حوالہ پیش کریں تو پھر اگر حدیث مل گئی تو اس پر مزید گزارش پیش کر دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب