کیا امام شافعی امام ابوحنیفہ کی قبر پر زیارت کو گئے تھے؟
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ – توضیح الاحکام، جلد 2، صفحہ 409

کیا امام شافعی رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی قبر پر گئے تھے؟

روایت کا ماخذ

ایک مشہور روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’انی لا تبرک بابی حنیفة واجی الی قبره فی کل یوم۔ یعنی زائرا۔ فاذا عرضت لی حاجة صلیت رکعتین وجئت الی قبره وسالت الله تعالیٰ الحاجة عنده فما تبعد عنی حتی تقضی‘‘

(تاریخ بغداد)

اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ:

◈ میں امام ابوحنیفہ کے ساتھ تبرک حاصل کرتا ہوں۔

◈ روزانہ ان کی قبر کی زیارت کے لیے آتا ہوں۔

◈ جب مجھے کوئی حاجت پیش آتی ہے، تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جاتا ہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت مانگتا ہوں۔

◈ میری حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے۔

روایت کی اسنادی حیثیت

یہ روایت درج ذیل مصادر میں موجود ہے:

تاریخ بغداد (جلد 1، صفحہ 123)

اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ از صیمری (صفحہ 89)

اس روایت کی سند درج ذیل ہے:

’’مکرم بن احمد قال: نبانا عمر بن اسحاق بن ابراہیم قال: نباتا علی بن میمون قال: سمعت الشافعی۔۔۔‘‘

راوی ’’عمر بن اسحاق بن ابراہیم‘‘

◈ اس راوی کے حالات کسی مستند کتاب میں موجود نہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس راوی کو ’’غیر معروف‘‘ قرار دیا ہے: (السلسلۃ الضعیفہ، جلد 1، صفحہ 31، حدیث نمبر 22)

یعنی:

◈ یہ راوی مجہول الحال ہے۔

◈ اس بنا پر یہ روایت مردود قرار دی جاتی ہے۔

مردود روایت کی ترویج

اس روایت کو کئی مصنفین نے اپنی کتب میں بطور استدلال پیش کیا، جن میں شامل ہیں:

محمد بن یوسف الصالحی الشافعی (عقود الجمان عربی: ص 363، اردو: ص 440)

ابن حجر ہیتمی (مبتدع) (الخیرات الحسان فی مناقب النعمان عربی: ص 94، اردو: ص 255 [سرتاجِ محدثین])

ان حضرات نے:

◈ روایت کو نقل تو کیا، لیکن راوی عمر بن اسحاق بن ابراہیم کی توثیق سے گریز کیا۔

◈ اس سے ان کی تحقیقی معیار اور انصاف پسندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

◈ انہوں نے مناقب کی کتابوں میں مردود روایات کا سہارا لے کر باطل باتوں کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

ایک اور بے سند قصہ

بعض حضرات ایک اور قصہ پیش کرتے ہیں:

شہاب الدین الابشیطی (وفات: 810ھ، وفات 883ھ) نے یہ بیان کیا:
امام شافعی نے امام ابوحنیفہ کی قبر کے پاس فجر کی نماز ادا کی اور دعائے قنوت نہیں پڑھی۔
جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو فرمایا:
’’اس قبر والے کے ادب کی وجہ سے دعائے قنوت نہیں پڑھی۔‘‘
(عقود الجمان ص 363، الخیرات الحسان ص 94، تذکرۃ النعمان ص 440، 441، سرتاج محدثین ص 255)

یہ روایت:

بغیر سند کے بیان کی گئی ہے۔

موضوع، باطل اور ناقابلِ قبول ہے۔

دیگر بے اصل روایتیں

محی الدین القرشی نے طبقات میں بعض مجہول تاریخوں سے عدمِ جہر بالبسملہ (بسملہ آہستہ پڑھنا) کی بات بیان کی، جو:

بغیر سند ہے

◈ لہٰذا یہ روایت بھی باطل اور موضوع ہے

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مؤقف

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس موضوع روایت کے باطل ہونے کو:

حدیثی دلائل

عقلی نکات

کے ذریعے واضح کیا ہے۔

ماخذ: اقتضاء الصراط المستقیم (ص 343، 344 اور دوسرا نسخہ ص 385، 386)

سند کی شرط

اگر کوئی شخص اس قصے کو ثابت شدہ مانتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ:

صحیح اور متصل سند پیش کرے

◈ محض کسی کتاب کا حوالہ دینا کافی نہیں

امام شافعی رحمہ اللہ کے اقوال امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں

◈ امام شافعی رحمہ اللہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مدح و تعریف قطعاً ثابت نہیں

◈ بلکہ اس کے برعکس، امام شافعی رحمہ اللہ سے امام ابوحنیفہ پر تنقید باسند صحیح منقول ہے

ماخذات:

آداب الشافعی و مناقبہ از ابن ابی حاتم (ص 171، 172 – سندہ صحیح، ص 201، 202 – سندہ صحیح)

تاریخ بغداد (جلد 13، صفحہ 437 – سندہ صحیح، جلد 2، صفحہ 177، 178 – سندہ صحیح)

نتیجہ

لہٰذا:

◈ امام شافعی رحمہ اللہ کے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی قبر پر جانے کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔

◈ یہ قصے من گھڑت اور باطل ہیں۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے