کیا امام اذان کہہ سکتا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا امام اذان کہہ سکتا ہے؟

جواب :

امام کا اذان کہنا درست اور صحیح ہے۔
❀ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لَوْ أَطَقْتُ الْأَذَانَ مَعَ الْخِلِّيفى لَأَذَنْتُ.
”اگر اُمور خلافت کے ساتھ ساتھ میں اذان کہنے کی استطاعت رکھتا، تو ضرور اذان کہتا۔“
(الصلاة لأبي نعيم : 193 ، مصنف ابن أبي شيبة : 2334 ، وسنده صحيح)
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسناد جيد قوي.
”اس اثر کی سند جید اور قوی ہے۔“
(كتاب الأحكام الكبير : 195/1)
یہ دلیل ہے کہ امام بھی اذان کہہ سکتا ہے، کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں خود امامت کراتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ اذان کی خواہش رکھتے تھے ،مگر امور خلافت کی وجہ سے نہ کہہ پاتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اذان عمل خیر ہے، ہر مسلمان کے لیے مشروع ہے، امام کے لیے اذان کے عدم استحباب پر کوئی دلیل نہیں ۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676 ھ ) قاضی ابوطیب رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
أجمع المسلمون على جواز كون المؤذن إماما واستحبابه .
”مؤذن کے امامت کرانے کے جواز اور استحباب پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔“
(المجموع : 80/3)

تنبیہ

اس اجماع کے خلاف کچھ ثابت نہیں ، اس میں مروی روایت ضعیف ہے۔
❀ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يكون الإمام مؤدنا
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے مؤذن بننے سے منع فرمایا۔“
(السنن الكبرى للبيهقي : 433/1)
سند سخت ضعیف ہے۔
① اسماعیل بن عمرو بن نجیح ابواسحاق کوفی ”ضعیف“ ہے۔
② جعفر بن زیاد ”ضعیف“ ہے۔
حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث إسناده ضعيف بمرة .
”اس حدیث کی سند سخت ضعیف ہے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1