کیا امام ابوحنیفہ تابعی تھے؟ ایک تحقیقی مطالعہ
سوال:
کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے؟ اور کیا کسی صحابی سے ان کی ملاقات صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علمائے کرام کے مابین اس مسئلے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ علماء امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو تابعی تسلیم کرتے ہیں، جبکہ بعض انہیں تابعی نہیں مانتے۔ ان دونوں موقف رکھنے والے گروہوں کی آراء پر گفتگو سے قبل دو بنیادی اصول ذکر کیے جاتے ہیں:
دو اہم اصول
➊ صحیح یا حسن سند کی شرط:
وہ قول یا روایت جو بطور دلیل پیش کی جائے، اس کی سند صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہونی چاہیے، بصورت دیگر اس سے استدلال مردود ہوتا ہے۔
➋ صحیح دلیل کا مقدم ہونا:
اگر ایک دلیل صحیح ہے تو وہ ہزاروں ضعیف یا غیر ثابت دلائل پر مقدم ہوگی، خواہ وہ تعداد میں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔
فریق اول کا موقف: امام ابوحنیفہ تابعی تھے
خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 463ھ):
وہ لکھتے ہیں:
النعمان بن ثابت ابوحنیفة التیمی امام اصحاب الرأی و فقیه اهل العراق، رأی انس بن مالک و سمع عطاء بن ابی رباح۔۔۔
(تاریخ بغداد 13؍323، 324 ت 7297)
یعنی امام ابوحنیفہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور عطاء بن ابی رباح سے سنا ہے۔
بہت سے بعد کے علماء نے اس روایت پر اعتماد کیا، جیسے ابن الجوزی نے اپنی کتاب العلل المتناہیۃ (1؍128 ح 196) میں۔
وضاحت:
بعض افراد نے ابن الجوزی کے قول کو امام دارقطنی کی طرف منسوب کر دیا، جو کہ غلطی ہے۔ (دیکھئے اللمحات 2؍293)
فریق دوم کا موقف: امام ابوحنیفہ تابعی نہیں تھے
ابوالحسن دارقطنی رحمہ اللہ (متوفی 385ھ):
ان سے سوال کیا گیا کہ کیا امام ابوحنیفہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ہے؟
تو انہوں نے فرمایا:
لا ولا رویته، لم یلحق ابوحنیفة احدا من الصحابة
(تاریخ بغداد 4؍208 ت 1895)
نیز یہ روایت سوالات السہمی للدارقطنی (ص 263 ت 383) اور العلل المتناہیۃ (1؍65 ح 74) میں بھی ہے۔
یعنی امام دارقطنی کا مؤقف ہے کہ امام ابوحنیفہ نے کسی صحابی سے ملاقات نہیں کی۔
تنبیہ:
علامہ سیوطی رحمہ اللہ (متوفی 911ھ) کی کتاب تبییض الصحیفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفۃ (ص 10) میں امام دارقطنی کا یہ قول محرف ہو کر آیا ہے، جیسا کہ محمد عاشق الٰہی برنی دیوبندی نے تعلیق میں وضاحت کی ہے۔ یہ تحریف شدہ روایت اصل مصادر کے مقابلے میں ناقابل قبول ہے۔
موقف کا تقابل:
خطیب بغدادی اور دارقطنی دونوں کی روایات کا تقابل کرنے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دارقطنی کے قول کو تقدم اور وثاقت کی وجہ سے ترجیح حاصل ہے۔
فریق اول کی دلیل کا تجزیہ
روایت:
محمد بن سعد (کاتب الواقدی) نے نقل کیا:
سمعت ابا حنیفۃ یقول: قدم انس بن مالک الکوفۃ۔۔۔ قد رایتہ مرارا
(عقود الجمان ص 49، تذکرۃ الحفاظ 1؍168، مناقب ابی حنیفۃ ص 7، 8)
کمزوری:
◈ اس روایت کا راوی "سیف بن جابر” مجہول الحال ہے، جس کی توثیق نہیں ملی۔
(دیکھئے التنکیل ج 1 ص 179، تبصرۃ الناقد ص 218، 219، اللمحات 2؍277)
◈ یہ روایت ابن سعد کی الطبقات میں موجود نہیں، بلکہ الاسامی والکنی (4؍174) میں ابو احمد الحاکم کبیر نے دوسری سند سے بیان کی ہے جس میں "ابوبکر بن ابی عمرو” کی توثیق بھی غیر معلوم ہے۔
لہٰذا یہ روایت قابل استدلال نہیں۔
دیگر موضوع روایات:
کچھ مناقب کی کتب جیسے اخبار ابی حنیفہ للصیمری اور جامع المسانید للخوارزمی میں امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے متعلق متعدد من گھڑت روایات ہیں، جن کے راوی کذابین، مجہولین اور مجروحین ہیں، جیسے احمد بن صلت الحمانی۔
تفصیل کے لیے التنکیل اور اللمحات کا مطالعہ کیا جائے۔
فریق دوم کی مستند دلیل
امام ابن عدی الجرجانی (متوفی 365ھ):
سمعت ابا حنیفۃ یقول: مارأیت افضل من عطاء۔۔۔
(الکامل 7؍2473، جدید نسخہ 8؍237)
◈ سند بالکل صحیح ہے، جیسے الاسانید الصحیحۃ فی اخبار الامام ابی حنیفہ (ص 290) میں مذکور ہے۔
◈ دیگر روایات سے بھی امام ابوحنیفہ کا قول ثابت ہے کہ انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔
روایات کے مصادر:
تاریخ بغداد 13؍425
مسند علی بن الجعد 2؍777 (ح 2062، 1978)
العلل الصغیر للترمذی ص 891
الکامل لابن عدی 2؍537، 2؍327
القراءت خلف الامام للبیہقی ص 134، 157
راویوں کی توثیق:
عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز البغوی، محمود بن غیلان، ابن المقرئی، عبدالحمید الحمانی: سب ثقہ یا حسن الحدیث ہیں۔
نتیجہ:
ان صحیح روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے عطاء بن ابی رباح (تابعی) کو تو دیکھا لیکن کسی بھی صحابی کو نہیں دیکھا۔ اگر دیکھا ہوتا تو کبھی یہ نہ کہتے کہ "میں نے عطاء سے افضل کسی کو نہیں دیکھا”، کیونکہ ہر صحابی ہر تابعی سے افضل ہوتا ہے۔
خلاصہ تحقیق:
◈ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی نہیں تھے۔
◈ کسی بھی صحابی سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔
◈ خطیب بغدادی وغیرہ کے اقوال مرجوح اور ضعیف ہیں۔
◈ اسماء الرجال کے ماہر امام دارقطنی رحمہ اللہ کا قول راجح اور صحیح ہے۔
سند کی قوت کی بنیاد پر بھی دارقطنی کا قول مقدم ہے۔
علماء کے اقوال کی تائید
محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی (متوفی 902ھ):
وقسم معتدل کا حمد والدار قطنی وابن عدی
(المتکلمون فی الرجال ص 137)
حافظ ذہبی:
وقسم کالبخاری واحمد وابی زرعة وابن عدی معتدلون منصفون
(ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل ص 159)
تنبیہ:
اگرچہ حافظ ذہبی نے الموقظہ (ص 83) میں دارقطنی کو بعض اوقات متساہل قرار دیا ہے، لیکن یہ قول قابل رد ہے کیونکہ خطیب بغدادی، عبدالغنی ازدی، قاضی ابوالطیب الطبری وغیرہ کی توثیق کے مقابلے میں نہیں ٹھہرتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب