کیا اللہ کی صفات یا ناموں کا انکار کفر ہے؟ مکمل وضاحت
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

اللہ کے ناموں یا صفات کا انکار: ایک تفصیلی وضاحت

سوال:

اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اسماء (ناموں) یا صفات (صفات) میں سے کسی کا انکار کرے، تو اس شخص کے بارے میں شرعی حکم کیا ہوگا؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کے اسماء یا صفات کا انکار دو بنیادی اقسام پر مشتمل ہوتا ہے:

➊ انکار تکذیب (صریح انکار)

◈ یہ انکار بلا شبہ کفر ہے۔
◈ اگر کوئی شخص قرآن و سنت سے ثابت شدہ اللہ تعالیٰ کے کسی اسم (نام) یا صفت (صفت) کا انکار کرے، مثلاً یہ کہے:
"اللہ کا ہاتھ نہیں ہے”
تو تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع (اتفاق رائے) ہے کہ ایسا شخص کافر ہے۔
◈ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانا ایسا عمل ہے جو انسان کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔

➋ انکار تاویل (باطنی یا لغوی توجیہات)

اس قسم میں انسان ظاہری طور پر انکار تو نہیں کرتا، لیکن اللہ کی کسی صفت یا نام کی تاویل (توجیہ یا معنی) کرتا ہے۔ اس کی دو حالتیں ہیں:

◼ ایسی تاویل جس کی عربی زبان میں گنجائش ہو:

◈ ایسی صورت میں یہ تاویل کفر شمار نہیں ہوگی۔
◈ کیونکہ عربی لغت میں اگر اس مفہوم کی گنجائش ہو، تو اسے جھٹلانا یا صریح انکار شمار نہیں کیا جاتا۔

◼ ایسی تاویل جس کی عربی زبان میں کوئی گنجائش نہ ہو:

◈ ایسی صورت میں یہ تاویل کفر کے دائرے میں آتی ہے۔
◈ کیونکہ جب لغت میں اس معنی کی کوئی گنجائش نہ ہو، تو یہ دراصل تکذیب (جھٹلانا) بن جاتی ہے۔
◈ مثلاً اگر کوئی کہے:

"اللہ تعالیٰ کا نہ تو حقیقت میں کوئی ہاتھ ہے اور نہ یہ ‘ہاتھ’ نعمت یا قوت کے معنی میں ہے”

تو ایسا شخص کافر ہوگا، کیونکہ اس نے مطلق طور پر (بالکل ہی) نفی کی ہے، جو کہ تکذیب ہی ہے۔

قرآنی مثال کے ساتھ وضاحت

اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں کہے:

﴿بَل يَداهُ مَبسوطَتانِ﴾ (سورة المائدة: آیت 64)
"بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔”

اور وہ یہ کہے کہ:

"ان دونوں ہاتھوں سے مراد آسمان اور زمین ہیں”

تو یہ شخص بھی کافر ہوگا، کیونکہ:
لغت کے لحاظ سے یہ معنی درست نہیں۔
شرعی حقائق کی روشنی میں بھی یہ مطلب درست نہیں۔
◈ اس لیے ایسا شخص منکر اور مکذب (جھٹلانے والا) شمار کیا جائے گا۔

ایسی تاویل جس میں کفر نہیں:

اگر کوئی کہے کہ:

"یَدٌ” (ہاتھ) سے مراد ‘نعمت’ یا ‘قوت’ ہے

تو یہ کفر نہیں ہوگا، کیونکہ:
"یَدٌ” کا لفظ عربی زبان میں "نعمت” یا "قوت” کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

شعری حوالہ:

وَکَمْ لِظَلَام اللَّیْلِ عِنْدَکَ مِنْ یَدٍ
تُحَدِّثُ اَنَّ الْمَانَوِیَة تَکْذِبُ

ترجمہ:
"رات کی تاریکی کے تم پر کتنے احسانات ہیں، جو یہ بیان کرتے ہیں کہ ‘مانویہ’ جھوٹ بولتے ہیں۔”

◈ اس شعر میں "یَدٌ” کا لفظ نعمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
◈ یہ شعر اس عقیدے کے خلاف دلیل ہے جو مانویہ فرقہ رکھتا ہے کہ "ظلمت اور تاریکی سے خیر پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ صرف شر پیدا ہوتا ہے۔”

نتیجہ:

◈ اگر اللہ تعالیٰ کی صفات یا اسماء کا صریح انکار ہو، تو یہ کفر ہے۔
◈ اگر تاویل کی جائے، تو وہ کفر تب ہوگی جب وہ تاویل عربی زبان اور شرعی دلائل کے مطابق نہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1