سوال
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "جسے میں چاہوں ہدایت دوں اور جسے چاہوں گمراہ کروں”۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ خود ہی گمراہ کرتا ہے، تو پھر انسان کس بات کا قصوروار ہے؟ حافظ صاحب، یہ وہ سوال ہے جو اکثر میری گفتگو کے دوران کسی نہ کسی موقع پر سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کا تفصیلی جواب تحریر فرمائیں تاکہ میں خود بھی سمجھ سکوں اور دوسروں کو بھی اطمینان سے سمجھا سکوں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ کی مشیئت اور رضا: ایک ضروری فرق
اللہ تعالیٰ کی "مشیئت” (چاہنا، ارادہ کرنا) اور "رضا” (پسند کرنا، راضی ہونا) دو الگ چیزیں ہیں، جنہیں لوگ عموماً ایک جیسا سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ دونوں مختلف مفہوم رکھتے ہیں۔
◈ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان میں اللہ تعالیٰ کی مشیئت بھی شامل ہے اور رضا بھی۔
◈ ابوجہل بن ہشام کے ایمان کی عدم موجودگی میں اللہ کی رضا شامل نہیں تھی، جبکہ اس کے کفر میں اللہ کی مشیئت شامل تھی لیکن رضا نہیں تھی۔
﴿وَلَا يَرۡضَىٰ لِعِبَادِهِ ٱلۡكُفۡرَۖ﴾
(الزمر: 7)
"اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔”
ہدایت کے متلاشی کو ہدایت ملتی ہے
جو شخص ہدایت حاصل کرنے کا پختہ ارادہ کرتا ہے، اس کے لیے کوشش کرتا ہے، اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ہدایت دے دیتا ہے۔
﴿ٱللَّهُ يَجۡتَبِيٓ إِلَيۡهِ مَن يَشَآءُ وَيَهۡدِيٓ إِلَيۡهِ مَن يُنِيبُ﴾
(الشوریٰ: 13)
"اللہ چن لیتا ہے اپنی طرف جس کو چاہے اور راہ دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو رجوع کرے۔”
﴿وَٱلَّذِينَ جَٰهَدُواْ فِينَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ سُبُلَنَاۚ﴾
(العنكبوت: 69)
"اور جو ہمارے لیے کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور ان کو اپنے راستے دکھائیں گے۔”
لہٰذا "يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ” کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو زبردستی، جبر و اکراہ کے ذریعے ہدایت دیتا ہے، جیسا کہ بعض لوگ سمجھ بیٹھے ہیں۔
گمراہی اختیار کرنے والے کو اللہ ہدایت نہیں دیتا
جو شخص خود گمراہی کی راہ اختیار کرے، ظلم و فسق کے راستے پر چلے، اور برائی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے، تو اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو ہدایت نہیں دیتا۔
﴿وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلۡفَٰسِقِينَ﴾
(البقرہ: 26)
"اور اللہ گمراہ نہیں کرتا اس (مثال) سے مگر بدکاروں کو ہی۔”
﴿وَٱللَّهُ لَا يَهۡدِي ٱلۡقَوۡمَ ٱلظَّٰلِمِينَ﴾
(البقرہ: 258)
"اور اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا بے انصاف لوگوں کو۔”
پس، "يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ” کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ زبردستی کسی کو گمراہ کر دیتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو خود گمراہی کا خواہش مند ہو، اللہ اسے اسی راستے پر چھوڑ دیتا ہے۔
قرآن کی گواہی: دین میں جبر نہیں
﴿لَآ إِكۡرَاهَ فِي ٱلدِّينِۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشۡدُ مِنَ ٱلۡغَيِّۚ﴾
(البقرہ: 256)
"دین میں کوئی زبردستی نہیں، کیونکہ ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔”
رزق کی مثال سے وضاحت
اسی حقیقت کو ہم رزق کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔
﴿ٱللَّهُ يَبۡسُطُ ٱلرِّزۡقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقۡدِرُۚ﴾
(الرعد: 26)
"اللہ جس کے لیے چاہے رزق کشادہ کرتا ہے اور (جس کے لیے چاہے) تنگ کر دیتا ہے۔”
اب کوئی یہ کہے کہ:
◈ ایک آدمی جو نہ کام کرتا ہے، نہ کاروبار، نہ ملازمت اور نہ ہی کسی ہنر یا پیشے میں ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا رزق زبردستی کشادہ کر دیتا ہے؟
◈ جبکہ دوسرا آدمی دن رات محنت کرتا ہے، اور اللہ زبردستی اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں۔
اگر یہ تصور درست ہوتا تو پھر تو سب لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے اور دنیا کا نظام رک جاتا۔
ہاں، بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے اسباب کو چھوڑ کر بھی عطا فرما دیتا ہے، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ وہ مسببات پر بھی قادر ہے اور اسباب پر بھی۔
اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا
ہدایت و ضلالت یا کسی اور معاملے میں، اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا:
﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَظۡلِمُ ٱلنَّاسَ شَيۡٔٗا وَلَٰكِنَّ ٱلنَّاسَ أَنفُسَهُمۡ يَظۡلِمُونَ﴾
(یونس: 44)
"بیشک اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا، لیکن لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔”
نتیجہ
جو شخص ہدایت کا طالب ہو، اس کے لیے اللہ ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور جو خود گمراہی کی راہ چنے، اللہ اس کی مرضی کے مطابق اسے اسی طرف چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ کا ہدایت دینا یا گمراہ کرنا کبھی بھی زبردستی یا جبر کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کی نیت، کوشش اور عمل کے مطابق ہوتا ہے۔ یہی قرآن کا واضح پیغام ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب