کیا دین ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
سوال:
کیا دین ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
فضیلۃ الشیخ! بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ ان کی دین سے وابستگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب نے جب دین کو ترک کر دیا تو وہ بے مثال مادی ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی طرح وہ مغرب میں کثرتِ بارش اور زرعی پیداوار کو بھی اپنی بات کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسا دعویٰ وہی شخص کر سکتا ہے:
◈ جس کا ایمان کمزور ہو یا وہ ایمان سے بالکل خالی ہو۔
◈ جو تاریخ کی سچائیوں سے ناواقف ہو۔
◈ اور جو اسبابِ نصرت سے بے خبر ہو۔
دین سے وابستگی عزت اور ترقی کا ذریعہ ہے
اسلام کے ابتدائی دور میں امتِ مسلمہ جب دین کے ساتھ مخلصانہ وابستگی رکھتی تھی، تو:
◈ اسے عزت، سربلندی اور قوت حاصل تھی۔
◈ وہ زندگی کے تمام میدانوں میں غالب تھی۔
◈ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ مغرب نے اپنی ترقی کے لیے اسلامی عہد کے علوم و فنون سے استفادہ کیا۔
مگر جب مسلمان:
◈ دین کے بہت سے حصے کو چھوڑ بیٹھے۔
◈ دین میں ایسی بدعات شامل کر لیں جو اس کا حصہ نہ تھیں۔
◈ عقائد، اقوال اور افعال میں دین کی تعلیمات سے انحراف کرنے لگے۔
تو نتیجتاً وہ:
◈ ترقی کے میدان میں پیچھے رہ گئے۔
◈ زوال اور پسماندگی کا شکار ہو گئے۔
ہمیں یقین کامل ہے، اور ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم بھی اپنے اسلاف کی طرح دینِ اسلام سے مخلص ہو جائیں تو:
◈ ہمیں پھر سے عزت، بلندی اور قیادت حاصل ہو سکتی ہے۔
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ہرقل (شاہ روم) سے جب نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات بیان کیے تو ہرقل نے کہا:
"تم جو کچھ کہہ رہے ہو اگر یہ بات سچی ہے تو یہ شخص میرے ان دونوں قدموں کے نیچے کی زمین کا عنقریب مالک بن جائے گا۔”
جب حضرت ابوسفیان دربار سے باہر آئے تو کہا:
"ابن ابی کبشہ کا معاملہ بہت مضبوط ہوگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔”
(صحیح البخاري، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ، حدیث: ۷)
دین ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں
مغربی ممالک میں جو صنعتی اور تکنیکی ترقی نظر آتی ہے، اس کے بارے میں یاد رکھیں:
◈ ہمارا دین اس کی ہرگز راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔
◈ اگر ہم سنجیدگی سے کوشش کریں تو ہم بھی صنعت، حرفت اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
◈ افسوس کہ ہم نے دنیا کو بھی ضائع کر دیا اور دین کو بھی۔
اسلام دنیوی ترقی کا مخالف نہیں ہے، بلکہ قرآن ہمیں قوت، کوشش اور محنت کا درس دیتا ہے:
قرآن مجید کے دلائل:
﴿وَأَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِباطِ الخَيلِ تُرهِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُم…﴾ (سورة الأنفال: 61)
’’اور ان (کافروں کے مقابلے) کے لیے تم مقدور بھر قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو جن سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائے رکھو۔‘‘
﴿هُوَ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الأَرضَ ذَلولًا فَامشوا فى مَناكِبِها وَكُلوا مِن رِزقِهِ…﴾ (سورة الملك: 15)
’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم ( یعنی تابع) کردیا، لہٰذا تم اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ۔‘‘
﴿هُوَ الَّذى خَلَقَ لَكُم ما فِى الأَرضِ جَميعًا…﴾ (سورة البقرة: 29)
’’وہی تو ہے جس نے سب چیزیںـ، جو زمین میں ہیں، تمہارے لیے پیدا کیں۔‘‘
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ:
◈ انسان کو دنیا میں کمائی، عمل اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔
◈ لیکن دین کو چھوڑ کر نہیں، بلکہ دین کے ساتھ رہتے ہوئے۔
کفار کی ترقی ایک آزمائش ہے، کامیابی نہیں
ان قوموں کا دین:
◈ یا تو سرے سے باطل ہے۔
◈ یا الحاد پر مبنی ہے۔
اسلام کے سوا کوئی دین اللہ کے ہاں مقبول نہیں:
﴿ وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ…﴾ (سورة الأنفال: 85)
’’اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہود و نصاریٰ کو اگرچہ دنیاوی امتیاز حاصل ہے، لیکن آخرت میں ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو دیگر کفار کا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"اس امت کا جو یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سنے اور پھر میرے لائے ہوئے دین کی پیروی نہ کرے تو وہ جہنمی ہوگا۔”
(صحیح مسلم، الایمان، باب وجوب الایمان برسالة نبینا محمدﷺ، حدیث ۱۵۳)
لہٰذا:
◈ یہ سب کے سب کافر ہیں، چاہے وہ یہودی ہوں، عیسائی ہوں یا کسی اور باطل عقیدے کے حامل۔
کثرت بارش اور زرعی پیداوار، آزمائش کا حصہ ہے
کفار کو جو دنیاوی نعمتیں حاصل ہیں، وہ:
◈ محض آزمائش اور امتحان ہیں۔
◈ آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہوگا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر نبی کریم ﷺ کو چٹائی پر لیٹے دیکھا تو عرض کیا کہ:
"ایرانی و رومی تو عیش و عشرت کی زندگی میں ہیں اور آپ اس حال میں ہیں؟”
تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"يا عمر هؤلاء قومَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبا تُهُمْ فِی حياتهمِ الدُّنْيَا أما ترضی أن تکون لهم الدنيا ولنا الأخرة”
(صحیح البخاري، المظالم، باب الغرفة والعلية المشرفة، حدیث: ۲۴۶۸)
دنیاوی مصیبتیں ان قوموں پر بھی آتی ہیں
یہ قومیں:
◈ زلزلے، قحط، طوفان، آندھیاں اور وباؤں سے محفوظ نہیں ہیں۔
◈ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ہمیں ان کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ سوال کرنے والا:
◈ بصیرت سے محروم ہے۔
◈ حقیقت کو نہیں جانتا۔
اسے فوراً توبہ کرنی چاہیے، ورنہ:
◈ اچانک موت کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور بغیر توبہ کے پیش ہوگا۔
اصل ترقی دین سے وابستگی میں ہے
ہمیں یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ:
◈ ہمیں عزت، سربلندی اور قیادت صرف دینِ اسلام کی طرف مکمل اور سچے رجوع سے ہی حاصل ہوگی۔
◈ قول و فعل میں ہم آہنگی لازم ہے۔
کفار کی راہ:
◈ باطل ہے، حق نہیں۔
◈ ان کا انجام جہنم ہے۔
جو دنیاوی خوش حالی انہیں ملی ہے:
◈ وہ آزمائش ہے، نعمت نہیں۔
◈ مرنے کے بعد ان پر حسرت اور غم میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ:
◈ انہیں دنیا میں کچھ وقت کے لیے نعمتیں عطا کی گئیں،
◈ لیکن وہ آفات و مصائب سے محفوظ نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ:
◈ سوال کرنے والے کو ہدایت نصیب فرمائے،
◈ ہمیں دین کی بصیرت عطا فرمائے،
◈ اور ہمیں حق کی پہچان اور اس پر عمل کی توفیق دے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب