سوال:
کیا اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ نے توکل کا حکم دیا ہے، توکل کا معنی یہ کہ اسباب کو اختیار کر کے نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں:
إنما التوكل فعل القلب لإنزال السبب
توکل در حقیقت اسباب اختیار کرنے کے ارادے کو کہتے ہیں۔
(كشف المشكل: 1/14)
ترک اسباب کا نام توکل نہیں ہے، جس طرح گمراہ صوفیا توکل کا مفہوم و معنی بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، تمام انبیائے کرام یقیناً توکل کرتے تھے، مگر وہ بھی اسباب اختیار کرتے تھے۔ کسی نے اسباب ترک کر کے توکل کا دعویٰ نہیں کیا۔
❀ فرمان الہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ
(سورۃ النساء: 71)
اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان تیار کرو۔
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ
(سورۃ الأنفال: 60)
کفار کے خلاف بقدر استطاعت قوت و طاقت تیار کرو۔
دشمن کے مقابلہ میں اسلحہ وغیرہ تیار کرنا سب اسباب ہیں، ان کی تیاری کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، معلوم ہوا کہ اسباب اختیار کرنا توکل ہی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہجرت مدینہ کے موقع پر کفار مکہ سے بچ بچا کر غار میں چھپنا اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنا وغیرہ سب اسباب ہیں۔ اسی طرح جنگ و غزوہ میں مالی و جسمانی تیاری کرنا، جنگی تدبیر کرنا سب اسباب ہیں، جو کہ توکل کے منافی نہیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں:
اعلم – وفقك الله – أنه لو رفض الأسباب شخص يدعي التزهد، وقال: لا آكل، ولا أشرب، ولا أقوم من الشمس فى الحر، ولا أستدفئ من البرد كان عاصيا بالإجماع
جان لیجیے، اللہ آپ کو توفیق دے کہ اگر کوئی شخص اسباب کو ترک کر دیتا ہے اور اسے زہد کا نام دیتا ہے، کہتا ہے کہ میں کھاؤں پیوں گا نہیں، گرمی میں سورج کے سامنے سے نہیں اٹھوں گا اور سردی میں گرمائش نہیں لوں گا، تو اس کے گناہ گار ہونے پر اجماع ہے۔
(صيد الخاطر، ص 76)