سوال
زید، بکر کو ایک من گندم اس شرط پر دیتا ہے کہ فی الحال گندم کی قیمت 15 روپے فی من ہے، لیکن بکر چوتھے یا پانچویں مہینے میں ادائیگی کرے گا اور تب اسے 5 روپے اضافی یعنی کل 20 روپے ادا کرنے ہوں گے۔ کیا اس طرح کا سودا جائز ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال سے جو صورتحال واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ بکر 5 روپے اضافی اس وجہ سے ادا کر رہا ہے کہ اس نے ادائیگی مؤخر یعنی چار یا پانچ مہینے بعد کرنی ہے۔ گویا یہ اضافی رقم صرف ادھار کے وقت کی بنیاد پر لی جا رہی ہے۔
✿ اس معاملے میں، بکر کو صرف ایک من گندم دی گئی ہے اور اس کے بدلے میں اسے کوئی اضافی شے نہ دی گئی ہے اور نہ ہی گندم کی مقدار میں کوئی اضافہ کیا گیا ہے۔
✿ جو پانچ روپے زائد لیے جا رہے ہیں، وہ صرف اور صرف ادھار کی مدت کے بدلے میں ہیں، یعنی گندم کی قیمت اگر فوراً ادا کی جاتی تو 15 روپے ہوتی، لیکن چونکہ ادائیگی مؤخر کی گئی ہے اس لیے 20 روپے لیے جا رہے ہیں۔
✿ چونکہ اس زائد رقم کا کوئی حقیقی عوض (جیسا کہ گندم کی زیادہ مقدار یا کوئی اور چیز) نہیں ہے، بلکہ صرف ادھار کے بدلے میں ہے، اس لیے یہ "سود” (ربا) ہے۔
قرآن مجید کی نصوص کے مطابق سود حرام ہے، اس لیے یہ معاملہ شرعاً ناجائز ہے۔
✿ یہاں اس بات کا بھی کوئی اعتبار نہیں کہ دونوں فریق اس سودی معاملے پر راضی ہیں یا نہیں۔
✿ کیونکہ جب کوئی چیز اللہ تعالیٰ نے حرام کر دی ہو، تو انسانوں کی باہمی رضا مندی اس حرام کو حلال نہیں بنا سکتی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب