سوال
کیا یہ مسئلہ درست ہے کہ اپنے ہی شہر اور علاقے میں جب تک چاند نظر نہ آئے تو روزہ نہ رکھا جائے؟ اس بارے میں حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمہور علماء کا موقف
◄ جمہور علماء اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں کرتے۔
◄ ان کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شہر کے لوگ چاند دیکھ لیں تو پورے ملک کے تمام شہروں پر روزہ اور افطار لازم ہو جاتا ہے۔
◄ اس کی دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
قال قال رسول اللہ ﷺ: صوموا لرؤیته وأفطروا لرؤیته، الخ
(رواہ البخاری ومسلم بحواله نیل الاوطار ج۴، ص۲۱۴)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جب چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو۔‘‘
یہ حکم پوری امت کے تمام افراد کے لیے عام ہے۔ لہٰذا ایک شخص کا چاند دیکھنا، سب کا چاند دیکھنے کے برابر ہے۔
مخالف علماء کا موقف
◄ عکرمہؒ، ابن محمدؒ، سالمؒ اور اسحاقؒ کے نزدیک ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے حجت نہیں ہے۔
◄ یہی احناف کا صحیح مسلک ہے، اور شافعیہ کے نزدیک بھی یہی راجح ہے۔
◄ اس کی دلیل کریب کی مشہور اور طویل حدیث ہے، جس میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اہل شام، امیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے شامیوں کی رؤیت کا اعتبار نہیں کیا اور فرمایا:
لا هكذا أمرنا رسول الله ﷺ
(رواہ الجماعة إلا البخاری وابن ماجة، نیل الاوطار ج۴، ص۱۹۴، باب الھلال إذا راه أهل بلدۃ هل یلزم بقیة البلاد الصوم)
راجح بات
ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا اعتبار کرنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب