سوال
کیا بلا ذری کی روایت کہ عبد الرحمٰن بن معاویہ سے منقول ہے کہ عامر بن مسعود رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یزید کے متعلق فرمان نقل کیا، صحیح یا حسن ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایت کا خلاصہ:
روایت میں ذکر ہے کہ:
- بلا ذری نے عبد الرحمٰن بن معاویہ سے نقل کیا کہ:
- عامر بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
- ہم مکہ میں تھے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر دینے والا آیا۔
- ہم عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جو کچھ لوگوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھے تھے، مگر کھانا ابھی نہیں آیا تھا۔
- ہم نے خبر دی: "اے ابو العباس رضی اللہ عنہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی ہے۔”
- ابن عباس رضی اللہ عنہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا:
"اے اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ پر اپنی رحمت وسیع فرما۔ یقیناً آپ ان لوگوں جیسے تو نہ تھے جو آپ سے پہلے گزر چکے، لیکن آپ کے بعد بھی آپ جیسا کوئی نہ دیکھنے کو ملے گا، اور آپ کا بیٹا یزید آپ کے خاندان کے صالح لوگوں میں سے ہے۔ اس لیے اے لوگو! اپنی اپنی جگہوں پر رہو اور اس کی بیعت کر کے اطاعت کرو۔”
(انساب الاشراف 5/302 (ص2146)، دوسرا نسخہ 5/290)
روایت کی سند پر تفصیلی تحقیق:
1. راوی: ابو الحویرث عبد الرحمٰن بن معاویہ بن الحویرث الانصاری الزرقی المدنی
حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"والاكثر على تضعيفه”
اکثر (جمہور) محدثین نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد 1/32)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں ذکر کیا:
"من السادسة”
یعنی چھٹے طبقے میں شمار کیا ہے۔
(تقریب التہذیب:4011)
2. راوی و روایت کا انقطاع: عامر بن مسعود بن اُمیہ بن خلف اجمحی رضی اللہ عنہ
ان کے صحابی یا تابعی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
اگر وہ صحابی ہوں:
تو عبد الرحمٰن بن معاویہ کی ان سے روایت منقطع ہے کیونکہ دونوں کے درمیان ملاقات ثابت نہیں۔
اگر وہ تابعی ہوں:
تب بھی عبد الرحمٰن بن معاویہ کی ان سے ملاقات یا معاصرت کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"السادسة: طبقة عاصروا الخامسة: لكن لم يثبت لهم لقاء أحد من الصحابة، كابن جريج”
(مقدمۃ التقریب ص15)
3. محدثین کے اقوال میں عدم صراحت:
- حافظ مزی رحمہ اللہ نے "تہذیب الکمال” میں دونوں کے تراجم میں استادی و شاگردی کا کوئی تعلق بیان نہیں کیا۔
- دیگر کسی کتاب میں بھی اس حوالے سے صراحت نہیں ملتی۔
- اس بنا پر سند میں انقطاع کا شبہ موجود ہے۔
خلاصۂ تحقیق:
یہ روایت:
عبد الرحمٰن بن معاویہ کی ضعف کی وجہ سے۔
راویوں کے درمیان اتصال نہ ہونے کی بنیاد پر۔ ضعیف و مردود ہے۔
لہٰذا معاصر علماء میں سے کسی محمد بن ہادی الشیبانی کا اس روایت کو "حسن” قرار دینا صحیح نہیں۔
علمی اصول کی وضاحت:
جو شخص اس روایت کو "حسن” یا "صحیح” قرار دیتا ہے، اس پر لازم ہے کہ:
عبد الرحمٰن بن معاویہ کی عامر بن مسعود سے ملاقات یا معاصرت کو ثابت کرے۔
اور یہ بھی واضح کرے کہ جمہور محدثین کے نزدیک عبد الرحمٰن بن معاویہ موثق تھے۔
یاد رکھیں کہ علمی میدان میں بے دلیل دعوے کی کوئی وقعت نہیں۔
واللہ اعلم۔
تنبیہ:
"انساب الاشراف” للبلاذری کے موجودہ مطبوعہ نسخے کے بارے میں بھی تحقیق کی ضرورت ہے کہ:
"کیا واقعی یہی نسخہ بلا ذری سے ثابت ہے؟”
(تاریخ: 26 مارچ 2013ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب