کھانا کھاتے وقت سلام کا جواب دینا: شرعی رہنمائی
عمومی ہدایت: سلام کو عام کرنا
اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام کے بعد!
رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے سلام عام کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
«أفشو السلام بينکم»
(صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب بیان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون)
"تم اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔”
مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ بنیادی حقوق کا ذکر کیا:
«حق المسلم علی المسلم ست قيل ماهن يارسول الله صلی الله عليه وسلم؟ قال: إذالقيته فسلم عليه، وإذا دعاک فأجبه، وإذا استنصحک فانصح له، وإذا عطس فحمد الله فسمته، وإذا مرض فعده، وإذا مات فاتبعه»
(صحيح مسلم: کتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز، حدیث: 1169)
"مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ پوچھا گیا: وہ کیا ہیں، اے اللہ کے رسول ﷺ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
جب تو اس سے ملے تو سلام کر،
جب وہ تجھے دعوت دے تو قبول کر،
جب وہ تجھ سے نصیحت مانگے تو نصیحت کر،
جب وہ چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دے،
جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کر،
اور جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔”
عمومی احادیث اور ان کا مفہوم
مندرجہ بالا دونوں احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلام کرنا ہر حال میں ایک عام اور لازمی عمل ہے۔ ان میں کسی خاص حالت یا کیفیت کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا، نہ ہی کوئی قید لگائی گئی ہے۔
لہٰذا جب تک کسی خاص حالت (جیسے کھانے کے وقت) میں سلام کے ترک یا جواب نہ دینے کی کوئی صحیح حدیث یا مستند اثر موجود نہ ہو، ان عمومی احادیث کی روشنی میں ہر حالت میں سلام کرنا اور اس کا جواب دینا درست اور مشروع ہے۔
کھانے کے دوران سلام سے متعلق اعتراض
سوال کے ضمن میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کھانے کے دوران سلام دینا یا اس کا جواب دینا مکروہ ہے— اس پر غور کرتے ہوئے عرض ہے کہ:
◈ اگر کوئی اس بات کا قائل ہے کہ کھانے کے دوران سلام دینا یا اس کا جواب دینا مکروہ ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ایسی صحیح حدیث یا معتبر اثر پیش کرے جو ان عمومی احادیث کی تخصیص کرے۔
◈ جب تک ایسا کوئی مستند ثبوت نہیں آتا، سلام کا حکم عمومی اور ہر حالت میں قابلِ عمل ہے۔
اثر ابن عمرؓ: ایک واضح مثال
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نافعؒ بیان کرتے ہیں:
"ہم حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ مدینہ طیبہ سے باہر تھے۔ ساتھیوں نے کھانا تیار کیا اور دسترخوان پر لگایا، ہم کھانے لگے تو ایک چرواہا وہاں سے گزرا۔ اس نے سلام کیا۔ حضرت ابن عمرؓ نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی، مگر اس نے کہا: میرا روزہ ہے۔”
(شعب الایمان: 5291)
اس اثر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرامؓ کھانے کے دوران بھی سلام کو ترک نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اس سے روکتے تھے۔
نتیجہ اور ذمہ داری
◈ اگرچہ اثر ابن عمرؓ نہ بھی پیش کیا جائے، تب بھی ابتدائی طور پر ذکر کردہ احادیث کی روشنی میں ہر حالت میں سلام کرنا درست ہے۔
◈ لہٰذا، جو حضرات کھانے کے دوران سلام نہ کرنے یا اس کا جواب نہ دینے کے قائل ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی رائے کے حق میں صحیح سند کے ساتھ کوئی نص یا اثر پیش کریں۔