کوئی چیز معلوم مدت تک معین اُجرت کے بدلے کرائے پر دینا
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کوئی چیز معلوم مدت تک معین اُجرت کے بدلے کرائے پر دینا جائز ہے، اس کی ایک صورت زمین کو کرائے پر دینا ہے، (زمین کو ) نصف پیداوار کے عوض کرائے پر دینا جائز نہیں
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس مدینہ کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زمین زیادہ تھی۔ ہمارے ہاں طریقہ یہ تھا کہ جب زمین بصورت جنس کرایہ پر دیتے تو یہ شرط لگا دیتے کہ اِس حصے کی پیداوار تو میری رہے گی اور اُس حصے کی تمہاری رہے گی۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک حصے کی پیداوار خوب ہوتی اور دوسرے کی نہ ہوتی اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس طرح معاملہ کرنے سے منع فرما دیا۔
اور صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں یہ لفظ ہیں:
فأما شيئ معلوم مضمون فلا بأس به
”ہاں اگر کوئی معین چیز ہو جس کی ضمانت ہو سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔“
[بخاري: 2332 ، كتاب الحرث والمزارعة: باب ما يكره من الشروط فى المزارعة ، مسلم: 1183 ، كتاب الببوع: باب كراء الأرض بالذهب والورق]
جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے نصف پیداوار کے عوض معاملہ طے کیا تھا۔
[بخاری: 2285 ، كتاب الإجارة: باب إذا استاجر أرضا فمات أحدهما ، مسلم: 2896 ، ترمذي: 1304 ، ابو داود: 2959]
ایک طرف تو حدیث میں مطلق طور پر زمین کرایہ پر دینے کی ممانعت موجود ہے ۔
نهي عن كراء الارض
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے ۔“
[مسلم: 1547 ، كتاب البيوع: باب كراء الارض بالذهب و الورق]
اور دوسری طرف یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ عمل کیا کرتے تھے ۔
[بخاري: 2332 ، كتاب الحرث والمزارعة: باب ما يكره من الشروط فى المزارعة]
حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل خیبر سے نصف پیداوار پر زمین کا معاملہ طے کر رکھا تھا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
ولهم شطر ما يخرج منها
[بخاري: 2285]
ان احادیث میں تطبیق یوں دی گئی ہے کہ نصف یا اس سے کم و بیش پیداوار یا کسی اور چیز کے عوض زمین کرایہ پر دینا جائز ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے اور منع کی احادیث کو حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث پر محمول کیا جائے گا جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ :
كنا أكثر الأنصار حقلا قال كنا نكرى الأرض على أن لنا هذه ولهم هذه فربما أخرجت هذه ولم تخرج هذه فنهانا عن ذلك وأما بالورق فلم ينهنا
”تمام انصار میں سے ہمارے ہاں کھیتیاں زیادہ تھیں ، جس وجہ سے ہم زمین یہ کہہ کر کرایہ پر دیتے کہ یہاں کی پیداوار ہم لیں گے اور وہاں کی تمہاری ہو گی ، پھر کبھی یہاں خوب پیداوار ہوتی اور وہاں نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا البتہ چاندی کے عوض کرایہ پر دینے سے منع نہیں فرمایا ۔“
[بخاري: 2332 ، كتاب الحرث والمزارعة: باب ما يكره من الشروط فى المزارعة ، مسلم: 1183 ، كتاب البيوع: باب كراء الأرض بالذهب والورق]
معلوم ہوا کہ زمین کرائے پر دینے کی ممانعت قطعہ ارضی کی تخصیص میں ہے ، معلوم منافع (مثلا معین پیداوار ، چاندی یا نقدی) کے عوض نہیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1