کنیز کا تصور اور آج کے دور میں اس کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1

سوال

کنیز کیا ہے؟ کیا آج کے دور میں ایک مسلمان اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کنیز رکھ سکتا ہے؟ اور کیا اس کے ساتھ ہم بستری کے لیے نکاح ضروری ہے؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

جواب

کنیز (لونڈی) اس عورت کو کہا جاتا ہے جسے مسلمان مجاہدین جنگ کے میدان سے قیدی بنا کر لاتے ہیں۔ ان کو جنگی قیدیوں کی حیثیت سے مالِ غنیمت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، یا انہیں آزاد کیا جا سکتا ہے، یا پھر فدیہ لے کر چھوڑ دیا جا سکتا ہے۔

لونڈی کے ساتھ تعلقات کا شرعی حکم

اگر کوئی عورت جنگی قیدی کی حیثیت سے مالِ غنیمت میں کسی مجاہد کے حصے میں آئے، تو وہ اس کی لونڈی سمجھی جائے گی۔ شریعت کے مطابق، مالک اپنے حصہ میں آنے والی لونڈی کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے استبراء رحم (یعنی حمل نہ ہونے کی تصدیق) ضروری ہے۔

استبراء رحم کی شرائط

◄ اگر لونڈی حاملہ ہو، تو اس کا مالک اسے وضع حمل تک نہیں چھو سکتا۔
◄ اگر لونڈی حاملہ نہ ہو، تو اس کے پہلے حیض کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔ حیض کے بعد غسل کرنے پر ہی ازدواجی تعلقات جائز ہیں۔

قرآن مجید میں لونڈیوں سے تعلقات کا حکم

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر یہ ذکر کیا ہے کہ مسلمان مرد دو طرح کی عورتوں کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتے ہیں:

◄ ان کی بیویاں
◄ ان کی مملوکہ لونڈیاں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ – إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ – فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ”
(سورہ المؤمنون: 5-7)
"اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور اپنی مملوکہ لونڈیوں کے، تو ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ لیکن جو اس کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کریں، تو وہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔”

آج کے دور میں کنیز کا تصور

آج کے دور میں لونڈی یا کنیز رکھنے کا کلچر عملی طور پر موجود نہیں ہے۔ یہ تصور اس وقت تھا جب مسلمانوں اور کفار کے درمیان جنگیں ہوا کرتی تھیں، جیسے کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں۔ ان جنگوں میں کفار کی عورتیں قیدی بن کر آئیں، اور یہ قیدی مجاہدین اسلام میں بطور مالِ غنیمت تقسیم کیے جاتے تھے۔ ایسی صورت میں ان کے ساتھ تعلقات شریعت کے مطابق جائز تھے۔

جدید دور میں اغوا یا خرید و فروخت کا حکم

آج کل جو لوگوں کو اغوا کرکے یا آزاد انسانوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، وہ اسلام میں مکمل طور پر حرام ہے۔ یہ شرعی طور پر لونڈی یا غلام کے زمرے میں نہیں آتی۔ لونڈی صرف اس وقت بن سکتی ہے جب دشمنان اسلام کے ساتھ جنگ کی صورت میں عورتیں قیدی بن کر آئیں، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

خلاصہ

◄ لونڈی وہ عورت ہے جو جنگی قیدی کے طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آئے۔
◄ بیوی کے علاوہ کنیز کے ساتھ ازدواجی تعلقات کے لیے نکاح ضروری نہیں، لیکن استبراء رحم کی شرائط پوری کرنا ضروری ہے۔
◄ آج کے دور میں لونڈی کا تصور عملی طور پر موجود نہیں، کیونکہ اس کے لیے ضروری شرائط پوری نہیں ہو رہیں۔
◄ اغوا شدہ یا زبردستی قید کی گئی عورتیں لونڈی کے زمرے میں نہیں آتیں، اور ان کے ساتھ تعلقات حرام ہیں۔

لہذا، آج کے دور میں ایک مسلمان اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے شرعی طریقے سے کنیز نہیں رکھ سکتا، کیونکہ لونڈی بنانے کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم ﷺ کے دور میں جنگی قیدیوں کے متعلق تھا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!