اشرف جلالی کا اعتراض کہ کلمہ کا معنی مشکل کشا، حاجت روا، داتا کرنا درست نہیں
یہ اقتباس الشیخ سید توصیف الرحمٰن راشدی کی کتاب عقیدہ توحید پر جلالی کے شبہات کا ازالہ سے ماخوذ ہے۔

چنانچہ جب اہل توحید، اہل حدیث علماء نے ان شرکیہ امور سے لوگوں کو منع کیا انھیں آواز دی۔ بھائیو! شرک سے باز آ جاؤ، اللہ کی توحید کی طرف آ جاؤ تو انھوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ چیخ و پکار کی،

اشرف جلالی بریلوی صاحب کہتے ہیں:

ہم مظلوم ہیں، ہم مشق ستم بنے ہوئے ہیں، ہماری اس بات پر بھی اور ہمارے معتقدات پر بھی تیر برسائے جا رہے ہیں، مشرک کہا جاتا ہے اور شرک کے فتوے لگائے جاتے ہیں، آج ہم اپنی صفائی دینے کے لیے بیٹھے ہیں، ہم یہ بتانے آئے ہیں کہ توحید کے وارث کل بھی ہم تھے اور آج بھی ہم ہیں۔

توحید کا عقیدہ گھٹی میں ہم نے پایا
ممکن نہیں مٹانا دل سے ایمان ہمارا۔

جواب حضرت جی!

اگر آپ توحید کے متوالے ہو تو بتاؤ یہ منگو پیر کس کی پیداوار ہے؟ یہ قازقستان میں ہونے والا حج کس کی پیداوار ہے؟ یہ قبروں کے طواف کس نے شروع کروائے ہیں؟ یہ قبروں پر نقلی کہے اس کی ابتدا کس نے کی ہے؟ یہ بزرگوں کی قبروں پر عبادت کی ابتدا امت میں کس نے کی ہے؟ اور کیا کچھ درباروں پر نہیں ہوتا، ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں: ابن شاہ کا دربار، وہاں پر جو کچھ آپ کے مرید کرتے ہیں اس کو اور آپ کے پیر کی کارستانی کو ہماری آنکھیں جانتی ہیں۔ جو چاہے وہ youtube دیکھ لے۔ یہ کس نے کیا؟ اس پورے کاروبار کو فروغ دینے والے کون ہیں؟ آپ اپنے آپ کو توحید کے متوالے کہتے ہو۔ تو سنو! ویسے بڑی عجیب بات ہے۔ ہمیشہ اہل حدیث پر یہ طعنہ رہا ہے کہ لفظ توحید حدیث میں ہے نہ قرآن میں ہے۔ لفظ توحید وہابیوں نے گھڑا ہے۔ اقتدار احمد نعیمی صاحب اپنی کتاب شرعی استفتاء کے صفحہ 23 پر لکھتے ہیں:
”وہابیوں نے سات (7) لفظ اپنے پاس سے ایجاد کیے ہیں۔ اپنے دین میں داخل کیے جس کا قرآن حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، اور ان سات لفظوں میں پہلا لفظ توحید ہے جو کہ یہ گھڑا ہوا ہے۔ اور اگر صوفیاء کی کتب کے اندر لفظ توحید ہے تو یہ وہابیوں نے اس میں لکھا ہے۔ اصل میں اس لفظ کی کوئی بنیاد نہیں، کوئی ثبوت نہیں دے سکتا، نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں ہے۔
میں کہتا ہوں حضرت جی! لفظ توحید وہابیوں کا گھڑا ہوا نہیں ہے۔ وہابیوں کے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا ہے۔ آپ کہتے ہیں کوئی دلیل نہیں دے سکتا، میں عقیدہ توحید کا چھوٹا سا خادم ہوں، میں آپ کو دلیل دیتا ہوں۔ جامع ترمذی کی حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((يعذب ناس من أهل التوحيد فى النار))
(سنن ترمذی: 2597، صحيح)
قیامت کے دن اہل توحید کے کچھ لوگوں کو آگ کا عذاب ہوگا۔
اسی حدیث میں آگے ارشاد نبوی ہے:
”یہاں تک کہ وہ اس کے کو ملے بن جائیں گے، پھر انھیں رحمت الہی آ پہنچے گی تو انھیں نکال باہر کر کے جنت کے دروازوں پر پھینک دیا جائے گا، پھر جنت والے ان پر پانی چھڑکیں گے تو وہ ایسے اگیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ میں گھاس اگتی ہے۔“ آپ کہتے ہیں توحید کا لفظ قرآن میں نہیں، حدیث میں نہیں۔ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے۔ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو بد اعمالیوں اور گناہوں کی وجہ سے آگ کا عذاب ہوگا۔
((حتى يكونوا فيها حمما))
”وہ آگ میں جل کر کوئلے کی طرح راکھ ہو جائیں گے۔“
لیکن عقیدہ توحید کی وجہ سے کیا ہوگا!
((ثم تدركهم الرحمة))
”پھر رب کی رحمت انھیں لے لے گی۔“
موحد ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا۔ پھر اللہ کی رحمت انھیں لے لے گی۔ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے کچھ عرصہ جہنم میں رہیں گے پھر اللہ کی رحمت انھیں آئے گی۔
((فيخرجون ويطرحون على أبواب الجنة))
”در جہنم سے نکالا جائے گا جنت کے دروازوں میں ڈال دیا جائے گا۔“
((فيرش عليهم أهل الجنة الماء))
”جنتی جنت کا پانی ان کے اوپر گرائیں گے۔ یہ ایسے اُگیں گے جیسے سیلاب کے گزرنے کے بعد سیلاب کے راستے میں گھاس اُگتی ہے۔“
((ثم يدخلون الجنة))
”پھر اللہ کی رحمت سے یہ بھی جنت میں داخل ہو جائیں گے۔“
آپ کل تک تو ہمیں طعنہ دیا کرتے تھے کہ یہ لفظ توحید تم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے اور آج اس لفظ کا بڑے ہی دھڑلے اور کثرت سے استعمال کر رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ہم توحید کے متوالے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بقول اقتدار احمد نعیمی کے آپ خود بدعتی ہو گئے اور ہم نے تو دلیل دی کہ یہ لفظ توحید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں استعمال ہوا۔

جلالی صاحب کہتے ہیں ہم توحید کے والی و متوالی ہیں۔ ہم پر ظلم و ستم ہوتا ہے۔ حکومت نوٹس لے، حضرت اپنی حرکتوں پر آپ خود نوٹس لیں۔ بزرگوں کی قبروں پر شرکیہ امور روکیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

لا الہ الا اللہ کے معنی میں شبہ:

کچھ لوگ آج توحید بیان کرتے ہیں اور [لا الہ الا اللہ] کا ترجمہ کر کے کہتے ہیں کہ کوئی گیارہویں والا نہیں، کوئی بارہویں والا نہیں، کوئی مشکل کشا نہیں، کوئی حاجت روا نہیں، کوئی داتا نہیں، کوئی دستگیر نہیں، کوئی مشکل کشا نہیں، کوئی غریب نواز نہیں، لفظ اللہ کا ترجمہ لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے۔

الجواب

آئیے! جلالی صاحب کے اس کلام کو ہم اللہ مالک کے کلام پر پیش کرتے ہیں:

قرآن حکیم سے سوال کرتے ہیں اللہ کا کلام ہمیں اللہ کا کیا مفہوم بیان کرتا ہے۔ الہ کسے کہتے ہیں؟ کیا مشکل کشا الہ نہیں ہوتا؟ کیا حاجت روا الہ نہیں ہوتا؟ کیا روزی دینے والا الہ نہیں ہوتا؟
سورۃ النمل میں اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے:
آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ
(النمل: 62)
”کون ہے وہ جو لا چار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے بلاتا ہے اور وہ تکلیف کو دور کرتا ہے اور وہ تمھیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟“
اللہ کا واسطہ ہے قرآن حکیم کی آیت دل کی کھڑکیاں کھول کر سمجھو۔ شرک کی دلدل میں گرے ہوئے لوگو! اس دھوکے میں نہ آنا کہ مشکل کشائی الوہیت نہیں۔
آگے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ء اله مع الله ہے کوئی اللہ کے ساتھ (دوسرا) الہ؟ قليلا ما تذكرون بے کس کی آواز سننے والے، مشکل میں پھنسے ہوئے کی آواز سننے والے اور مشکل کشائی کرنے والے کو قرآن الہ کہہ رہا ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ نہیں ہے یا علی مدد کہنے والو! یا رسول اللہ مدد کہنے والو! یا حق باہو سچ با ہو“ کہنے والو! یا عبد القادر جیلانی شيئا الله کہنے والو! الہ مع الله مشکل میں بیڑہ اللہ پار کرتا ہے۔ مشکل میں مخلوق پھنستی ہے۔ مشکل میں عوام پھنستی ہے، پھر اپنے خالق کو پکارتی ہے، خالق کہتا ہے مشکلوں سے نکالنے والا وَيَكْشِفُ السُّوءَ مشکل ٹالنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ء اله مع الله کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ (یقیناً ہرگز نہیں ہے)۔
مشکل کشا کو الہ کہتے ہیں قرآن سے ہمیں یہ بات سمجھ آئی ہے اور پھر قرآن کے الفاظ ء اله مع الله ”کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور اللہ ہے؟“ کے ساتھ یہاں پر چیلنج کیا جا رہا ہے کہ بتاؤ اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟
اس کے بعد فرمایا:
أَمَنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَمَنْ يُرْسِلُ الرِّيحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَى رَحْمَتِهِ ءَ إِلَهُ مَّعَ اللَّهِ تَعْلَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
(النمل: 63)
جو میں و تری پہ تاریکیوں میں راہ دکھائے جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبری والی ہوائیں چلا دیتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے جو راہ دکھانے والا، دستگیر، باز و پکڑ کر سیدھی راہ دکھانے والا ہو؟
تَعلَى اللهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ تم اللہ کے علاوہ جس کو مشکل کشا کہتے ہو بگڑی بنانے والا کہتے ہو اللہ پاک ہے تمہارے شریکوں سے۔
اس آیت کا مفہوم راہ دکھانے والے کے طور پر، دستگیر کے طور پر، مشکل کشا کے طور پر بیان ہوا ہے۔ اس سے آگے فرمایا:
أَمَّنْ يَبْدَوُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ
(النمل: 64)
کون ہے جو پیدائش کی ابتدا کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے اور جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے۔ اے لوگو! اللہ کا واسطہ ہے میرے رب کے کلام سے محبت کرو۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینے پر جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے نازل ہونے والے کلام الہی کو سینے سے لگاؤ۔ یاد رکھو! تمہارا پیر غلط کہہ سکتا ہے، آپ کا مولوی غلط کہہ سکتا ہے۔ لیکن عرش والا کبھی غلط نہیں کہہ سکتا۔ نہ مدینے والے کے بات غلط ہو سکتی ہے۔ یہ مالک کا کلام ہے یہ رحمن کی طرف سے اترا ہوا پیغام ہے۔ مالک کہہ رہا ہے: آمَنْ يَبْدَوُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ کیا جس نے مخلوق کو اول بار پیدا کیا اور وہی دوبارہ لوٹائے گا۔ وَ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ آسمان اور زمین سے تمھیں رزق کون دیتا ہے؟
رزق دینے والے کو کہتے ہیں رازق اور داتا، غریب نواز، بندہ نواز کہتے ہیں۔ جو آسان سے روزی دیتا ہے زمین سے روزی دیتا ہے۔
له مع الله کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ (یعنی کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور روزی دینے والا ہے؟)
تم کہتے ہو: آئے ہیں تیرے در پہ، کچھ لے کر جائیں گے۔“ یاد رکھو! اس در یعنی مزاروں سے ملتا نہیں ہے، جاتا ہے۔ ان سے پوچھو بابا جی کی قبر پر جو بڑے سے چندے کے باکس (Box) لگے ہوئے ہیں، اس پر تالا کیوں پڑا ہوا ہے؟ کہتے ہیں ملنگ چوری کر لیتے ہیں، تو کیا تمہارا بزرگ پاس ہو کر ملنگ کو قابو نہیں کر سکتا؟ تم کہتے ہو بابا سب کچھ ہی دیتا ہے۔ تو بتاؤ اس بزرگ کی قبر پر چندہ باکس کو تالا کیوں لگاتے ہو؟ جو قبر میں دفن ہو گیا اس کے اخراجات کون پورے کرتا ہے؟ اللہ کا واسطہ دے کر پیار محبت سے اگر پوچھا جائے کہ اگر یہ چندہ نہ جمع کیا جائے تو کیا لنگر ہے گا؟ دیگیں بنیں گی؟ یہ آپ دیتے ہو تو چلتا ہے، داتا وہ ہے جو تمھیں دیتا ہے۔ تم سے لیتا نہیں ہے۔ دینے والا صرف اللہ ہے۔ اس لیے خالی ہاتھ صرف اللہ کے آگے ہی اُٹھتے ہیں اور بابے کی قبر پر بھی کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ کس طرف اُٹھاتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف) کیونکہ تمھاری عقل کہہ رہی ہوتی ہے۔ وہاں پر بھی ہاتھ سیدھے کر کے مانگتے ہو کیونکہ اگر اس بزرگ سے مانگنا ہو تو ہاتھ اُلٹے کر کے مانگو گے۔
مالک چیلنج کر رہا ہے جس نے پہلی بار پیدا کیا ہے۔ وہی دوبارہ لوٹائے گا وہی رزاق ہے۔ اس لیے اہل حدیث لا اله الا الله کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی اللہ نہیں، کوئی مشکل کشا نہیں، کوئی حاجت روا نہیں۔ کوئی بگڑی بنانے والا نہیں۔ اللہ کے علاوہ کوئی رزق دینے والا نہیں۔ اللہ کے علاوہ کوئی داتا نہیں۔ غریب نواز نہیں۔ بندہ پرور نہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس قرآن و حدیث سے اس کے متعلق بے شمار دلائل ہیں۔ قرآن پاک کی یہ آیت بھی ہے:
وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ
(المنافقون: 7)
آسمانوں اور زمین کے سارے خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔“
وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ
لیکن منافق نہیں سمجھتے۔
لہذا صرف اللہ ہی گنج بخش اور وہی کشتی پار کرنے والا ہے۔
لیکن مولاعلی میری کشتی پار کر وا دینا وغیرہ جملے اور کلمات ادا کرنا شرکیہ کام ہے۔ لوگو! کشتیوں کو پار کروانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، ہم سے پوچھو، ہم تمھیں بتاتے ہیں۔ نہ پیر جیلانی اللہ پار لگاتے ہیں۔ نا بابا جی پار لگاتے ہیں ناحق باہو تمہارے بیڑے کو دھکا لگاتے ہیں۔ کشتیوں کو پار لگانے والے کا تعارف سورۃ یونس میں مذکور ہے:
هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ
(يونس: 22)
وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی سے دریا میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو۔
وَ جَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَ فَرِحُوا بِهَا تم کشتی میں ہو اور وہ کشتی ہوا کے نواحوں میں لے کر تمھیں چلتی ہے، لوگ اس کے چلنے سے خوش ہوتے ہیں۔
جَاءَتْهُمْ رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ
(يونس: 22)
یعنی کشتی چل رہی ہے، ہوا بھی اس کے مطابق چل رہی ہوتی ہے، دیکھنے والے بھی خوش ہیں۔ اچانک ہوا کا سخت جھونکا آتا ہے۔ پھر ہر طرف سے موجیں اٹھتی ہیں، ان کے اوپر چڑھتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پھنس گئے، برے آگھیرے۔
دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ
(يونس: 22)
وہ دین کو خالص کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں اس دور کے پرانے مشرکوں کا حال بیان کر رہے ہیں (آج کے دور کے مشرکوں کا نہیں)۔ جب کشتیاں پھنس جائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے اور کہتے تھے:
لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
(يونس: 22)
اے اللہ! ایک دفعہ بچا لے، اگر آج تو نے بچا لیا تو ساری عمر شکر گزار بن کر رہیں گے۔
سابقہ امتوں کے مشرکین جب کہیں پھنس جاتے تھے، جب پکڑے جاتے تھے، جب جکڑے جاتے تھے تو پھنسنے کے بعد وہ صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے۔ آج کے مشرکین اگر مشکل میں پھنستے ہیں تو تب بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں پکارتے۔ آئیے ملاحظہ کیجیے:
❀ ایک بابا جی کی کرامات پر کتاب شائع ہوئی، کرامات مدادیہ۔ ان کا مرید کہتا ہے کہ ہم بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے۔ آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھا کہ چکر کھا کر غرق ہو جائے یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں تو اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیر روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ اور کون سا وقت امداد کا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے۔ اس وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی۔
ادھر تو یہ قصہ پیش آیا، ادھر اگلے روز مخدومِ جہاں اپنے خادم سے بولے: ذرا میری کمر دباؤ، نہایت درد کرتی ہے۔ خادم نے کمر دباتے دباتے پیراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کہ کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اتر گئی ہے۔ پوچھا: حضرت! یہ کیا بات ہے؟ کمر کیونکر چھلی؟ فرمایا: کچھ نہیں۔ پھر پوچھا، آپ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا: حضرت! یہ تو کہیں رگڑ لگی ہے اور آپ تو کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے۔
فرمایا: ایک آگبوٹ ڈوبا جاتا تھا، اس میں ایک تمہارا دینی اور سلسلے کا بھائی تھا۔ اس کی گریہ وزاری نے مجھے بے چین کر دیا۔ آگبوٹ کو کمر کا سہارا دے کر اوپر کو اٹھایا، جب آگے چلا اور بندگانِ خدا کو نجات ملی۔ اس سے چھل گئی ہو گی، اور اسی وجہ سے درد ہے، مگر اس کا ذکر نہ کرنا۔ اس کے بعد وہ شخص مکہ معظمہ پہنچا، تمام قصہ آگبوٹ کے غرق میں آنے اور اپنی التجا کرنے اور پھر اسی وقت اس بلا سے نجات ملنے کا حضرت سلمہ اللہ رحمہ اللہ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ سن کر چپ ہو گئے، مگر خادم نے اس شخص سے تمام کیفیت حضرت صاحب کی بیان کی اور پھر اس نے تمام حضار جلسہ کے سامنے سب حال بیان کیا۔ چنانچہ یہ قصہ تمام ولایت میں مشہور ہے اور وہ شخص بھی زندہ ہیں، نہایت صالح شخص ہیں۔
(کرامات امدادیہ، ص: 35-36، مدنی کتب خانہ، لاہور)
مکہ کے مشرکین اپنی کشتیوں کے پھنس جانے پر اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے۔ آج کے دور کے لوگ کہتے ہیں: گیارہویں والے پار لگا دینا، جیسا کہ مشہور ہے: ایک دفعہ کشتی چلنے لگی تو حضرت ملاح نے کہا: گیارہویں والے! پیر عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ پار لگانا۔ ایک مزدور پاس بیٹھا ہوا تھا وہ چھلانگ مار کر نیچے اتر گیا۔ کہا: بھائی کہاں جا رہا ہے؟ ابھی تو کشتی چلنے لگی ہے، ہمشکل سے بھری تھی تو ادھر ہی اتر گیا ہے؟ مزدور کہنے لگا: ملاح نے کہا ہے گیارہویں والے پار لگانا۔ میں نے مولوی صاحب سے کرامت سنی ہے کہ وہ (گیارہویں والے) بارہ سال بعد آئیں گے۔ میری صبح عدالت میں پیشی ہے۔ میں اس پر خطرہ مول نہیں لے سکتا۔
چنانچہ قرآن پاک کی مذکورہ بالا آیت سے ثابت ہوا کہ کشتیوں کو پار لگانے والا کون ہے؟ وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ جھوٹی کرامت ہے جو تم نے گھڑ لی۔ شاعر کہتا ہے دو چار سال کی بات ہی نہیں۔ پورے بارہ سال کی ڈوبی ہوئی کو پار لگانے والے پیرانِ پیر ہیں، دستگیر ہیں، پیر جیلانی سب کے پیر ہیں۔ لیکن یہ جھوٹا قصہ اور من گھڑت کہانی ہے کہ بارہ سال کچھ لوگ سمندر میں ڈوبے رہے پھر تھے بھی انسان کے بچے، مچھلیاں نہیں۔ آخر وہ زندہ رہے کیسے؟ کہ شیخ نے انہیں زندہ نکال لیا۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
لوگو! جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ داتا صرف اللہ تعالیٰ ہے (کیونکہ داتا دینے والے کو کہتے ہیں اور دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے) تو تمہارے لیے ہمارے پاس دلیل ہے۔ آؤ! ہم سے دلیل مانگو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
(الشورى: 49)
تمام بادشاہت آسمانوں اور زمین کی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔
يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ
(الشورى: 49)
جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔
کون پیدا کرتا ہے؟
اللہ تعالیٰ، لیکن ڈولے شاہ کے دربار پر چوہیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ بھی رب ہی پیدا کرتا ہے مگر یار لوگ کہتے ہیں کہ بابا جی کی کرامت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندو! رب کی کبریائی پر کیوں ہاتھ ڈالتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دو گے؟ پھر فرمایا:
يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ
(الشورى: 49)
جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔
سب کچھ اللہ تعالیٰ دیتا ہے، لڑکے بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور لڑکیاں بھی، ملا جلا کر دے تب بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ لیکن افسوس! کہ ہمارے ہاں کیا کہتے ہیں؟ لڑکیاں اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس لیے لڑکی کا نام اللہ رکھی یا اللہ وسائی رکھتے ہیں۔ آپ کبھی کسی لڑکی کا نام نہیں سنو گے پیر دتی یا پیر بخشی۔ لڑکا ہو تو اس کا نام رکھیں گے پیراں دتا، پیر بخش، نبی بخش، علی بخش، ولی بخش، امام بخش، عبدالنبی، عبدالرسول وغیرہ۔ لڑکے کا نام رکھتے ہیں کیونکہ لڑکے کو اعلیٰ سمجھتے ہیں، اور پیروں کو اعلیٰ سمجھتے ہیں تو اعلیٰ کی نسبت اعلیٰ کی طرف کرتے ہیں، اور لڑکی ہو جائے اول تو خبر ہی نہیں ہونے دیتے کہ کیا ہوا ہے؟ اس کی تو پڑوسی کو بھی خبر نہ دی۔ لڑکا ہوگا تو خوش ہوگا۔ لڑی ڈالے گا۔ دیسی گھی کے لڈو بانٹیں گے۔ لڑکا ہوا تو خوش ہوگا۔ قرآن پاک کہتا ہے لڑکی لڑکے اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ وہاب ہے اور وہاب دینے والے داتا کو کہتے ہیں، اور فرمایا:
وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا
(الشورى: 50)
اور جسے چاہے وہ بانجھ کر دے۔
یہ بھی یاد رہے کہ کوئی پیر فقیر کسی کی گود ہری نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ
(الأنعام: 17)
اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اسے دور کر سکے۔
ہم سچ کہتے ہیں لا إله إلا الله کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی داتا نہیں۔ کوئی مشکل کشا نہیں۔ اور یہ فقط قرآن پاک کی آیت کی روشنی میں کہتے ہیں۔
جو کہتا ہے علی مشکل کشا، ولی مشکل کشا، نبی مشکل کشا، وہ جان لے کہ بس مشکل کشا تو انبیاء کا رب ہے، ولیوں کا رب ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا رب مشکل کشا ہے۔ کیونکہ مشکل کشا وہ ہوتا ہے جس پر مشکل نہ آئے اور جس پر مشکل آ جائے وہ مشکل کشا نہیں ہوتا۔ رب پر مشکل نہیں آئی باقی سب پر مشکل آئی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشکل آئی؟ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملنے یتیم کی بیٹیوں کو طلاق ملی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشکل آئی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کرنے سے انکار کیا تو مشکل آئی؟ جس پر مشکل آ جائے تو وہ مشکل کشا نہیں ہوتا۔
وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(يونس: 107)
اور اگر وہ آپ کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو کوئی نہیں جو اس کے فضل کا رخ پھیر دے۔ وہ (اپنا فضل) اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے، وہ بے حد بخشنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے۔
آئے! اب میں دلیل بھی دے دوں کہ ہر چیز کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب کچھ کسی اور کے ہاتھ میں ہو مثال کے طور پر اگر کسی شیعہ بابے، پیر فقیر کے ہاتھ میں اولاد دینے کا اختیار ہوتا، تو بتاؤ سنیوں کے گھر (اہل سنت) میں کوئی بچہ پیدا ہوتا؟ اور اگر سنی پیروں کے ہاتھ میں اولاد دینے کا اختیار ہوتا تو کسی شیعہ کے گھر خالی لڑکی بھی پیدا ہوتی؟ اس کا بابا اس کی اولاد کو روکتا، اس کا بابا اس کی اولاد کو روکتا۔ رب کہتا ہے: میں خیر دوں کوئی روک نہیں سکتا۔ میں بیماری دوں تو کوئی شفا نہیں دے سکتا۔ پھر قرآن پاک کی بات سے معلوم ہوا کہ مشکل کشا بھی اللہ تعالیٰ ہے۔
پھر فرمان الہی ہے:
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ
(الأنعام: 17)
اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اسے دور کر دے۔
وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(الأنعام: 17)
اللہ تعالیٰ تجھے بھلائی اور خیر دینا چاہے تو اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
مختار کل بھی صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
(فاطر: 2)
جس رحمت کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے کھول دے تو کوئی نہیں جو اسے روک سکے اور جسے وہ روک لے تو کوئی نہیں جو اس کے بعد اسے چھڑا سکے۔ وہی غالب حکمت والا ہے۔
کوئی پیر، کوئی فقیر اور کوئی بزرگ کچھ نہیں کر سکتا۔ کسی بزرگ کی قبر کی خاک (مٹی) جتنی مرضی چاٹ لو کسی کی گود ہری نہیں ہو سکتی۔ اگر اللہ تعالیٰ نہ کرے یہ تو سب محتاج ہیں۔ اگر نبیوں، بابوں اور ولیوں کے ہاتھ میں اولاد دینا ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کے آخری بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت نہ ہوتے۔ کفار کا طعنہ نہ ہوتا، کیا ان ظالموں نے یہ بکواس نہیں کی معاذ اللہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتر (جس کے نرینہ اولاد نہ ہو) ہیں۔ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی:
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ
(الكوثر: 1-3)
بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوثر عطا کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہی لاولد ہے۔
اللہ تعالیٰ نے شانِ رسالت کا دفاع فرماتے ہوئے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتر نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن دم کٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تو قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ بہرحال سن لو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن دم کٹے ہیں۔ جن بزرگوں کو تم داتا، مشکل کشا سمجھتے ہو ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ داتا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ مالک فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ
(فاطر: 3)
اے لوگو! اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو۔
هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ
(فاطر: 3)
کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور خالق ہے جو آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دے؟
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی رزق دینے والا نہیں ہے۔ پیروں فقیروں کو ان کے اس مقام پر بٹھانے والو! اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک کر رہے ہو، جرم کر رہے ہو۔
خالق کہتا ہے میں رزق روک لوں۔
هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ
(فاطر: 3)
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور رزق دینے والا ہے جو زمین و آسمان سے تمہیں رزق دے؟
اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی سب محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے در کے فقیر ہیں۔ سچا داتا صرف اللہ تعالیٰ ہے، سچا بندہ نواز غریب نواز اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اے لوگو! اب اس عقیدہ کو چھوڑ دو اور اس قوالی کو سننا بھی چھوڑ دو۔ نام نہاد مسلمان قوالی گاتا ہے:

میں سنی عقیدت والا ہوں
ارے تو کیوں مجھ سے جلتا ہے
اک میں کیا سارا زمانہ بھی
میرے خواجہ کے در پہ پلتا ہے
یہاں خواجہ کا سکہ چلتا ہے

یہ کفریہ کلمہ ہے۔
پھر قوال کہتا ہے:

خواجہ نہ دے گا تو پھر کون دے گا؟

جب خواجہ پیدا نہیں ہوا تھا، اس وقت کون رزق دیتا تھا؟ جب ان کی نسل بھی نہیں آئی تھی تب بھی تو لوگ روٹی کھا کر سوتے تھے۔

رب دیتا ہے اور رب ہی دے گا
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے دیا
علی رضی اللہ عنہ کو رب نے دیا
ولی کو رب نے دیا

رب نہ دے تو کسی ولی کے گھر چولہا نہ جلے اور رب دے تو ولی کھاتے ہیں۔ تم نے مردوں کو داتا سمجھ لیا، تم نے مردوں کو کہا خواجہ نہ دے گا تو پھر کون دے گا؟ یعنی رب پر تمہارا ایمان اور بھروسا ہی نہیں ہے۔إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
مزید ملاحظہ کیجیے: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ
(فاطر: 15)
اے لوگو! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو۔
وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
(فاطر: 15)
اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور ہر تعریف کا بذات خود مستحق ہے۔
اللہ تعالیٰ بے نیاز خوبیوں والا ہے وہ داتا ہے چاہے تو نبی کا چولہا نہ جلے، چاہے تو دنیا بھر کو کھلا دے، کھلانے والا داتا، مشکل کشا، بگڑی بنانے والا، رزق دینے والا، غریب نواز بندہ پرور رب کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ جن کو تم داتا سمجھے ہو وہ تمہارے چندوں کے محتاج ہیں۔ اپنے مزاروں پر چلنے والے کام کے لیے۔ مجبور ہیں زندہ لوگ چندہ دیں۔
اور اللہ مالک نے اپنے آپ کو داتا ثابت کیا ہے۔ فرمایا:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ
(آل عمران: 8)
اے رب ہمارے! ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا اور اپنی طرف سے ہمیں رحمت عطا فرما، بے شک دینے والا عطا کرنے والا صرف تو ہے۔
اس آیت سے بھی ثابت ہوا کہ ہم سب کا داتا اللہ تعالیٰ ہے۔ ساری کائنات کی بے بسی کو یوں اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے۔ فرمایا:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ
(آل عمران: 26)
آپ کہہ دیجیے اے اللہ تعالیٰ! اے تمام جہانوں کے مالک تو جسے چاہے بادشاہی دے۔
وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ
(آل عمران: 26)
جس سے چاہے سلطنت کو چھین لے۔
سلطنت دینے والا بھی اللہ تعالیٰ، چھینے والا بھی اللہ تعالیٰ، بابے کے ڈنڈے سے کسی کو وزارت عظمیٰ نہیں ملتی۔ یہ جھوٹی کہانیاں اور قصے ہیں کہ اس بابے نے یہ کیا اور یہ ہو گیا وغیرہ۔
صرف وہ رب ہے جس کو چاہے بچائے اور جس کو چاہے آزمائش میں مبتلا کرے۔
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ
(آل عمران: 26)
وہ مولا جس کو چاہے عزت دے۔
وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ
(آل عمران: 26)
جس کو چاہے ذلیل کر دے۔
بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(آل عمران: 26)
ہر خیر اور بھلائی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔
آج تو یہ حال ہے کہ توحید کے دلائل جاننے کے باوجود سمجھنے کے باوجود اپنے مسلک کا تعصب اپنی جماعت کی ہمدردیاں لوگوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔
انڈیا کے ایک بابا جی ہیں، محمد میاں انہوں نے لندن میں کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا: آج کا کانفرنس کا عنوان ہے: غوث اعظم کا کانفرنس۔ پھر قرآن پاک کی آیت اس نے خود پڑھی، پتہ نہیں قیامت کے دن یہ رب کو کیا جواب دے گا۔ آیت پڑھی:
وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
(البقرة: 107)
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے۔ کوئی مددگار نہیں ہے۔
کوئی غوث اعظم نہیں ہے۔ کوئی ناصر نہیں ہے۔ تم کون ہوتے ہو ایک آدمی کو غوث اعظم کہو؟ تم کون ہوتے ہو ایک آدمی کو غریب نواز کہو؟ تم کون ہوتے ہو ایک آدمی کو مددگار کہو؟ تمہیں کس نے اختیار دیا کہ تم ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناؤ؟ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو غریب نواز اور غوث اعظم کہے وہ مشرک ہے۔
سارے مجمع میں سناٹا چھا گیا۔ بابا پریشان ہو گیا تو بابا فوراً کہتا ہے: ابھی جو کچھ میں بک (بول) رہا تھا تو اس آیت کی جاہلانہ تفسیر ہے۔ استغفر اللہ! یہ حالت ہے ان لوگوں کے تعصب وعناد کی کہ کئی آیات سے ثابت ہونے والی بات اور عقیدہ کو “جاہلانہ تفسیر” کہہ کر عوام کو قرآن پاک کے بتلائے راستے سے روکنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ واللہ المستعان على ما تصفون۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مزید دلائل ذکر فرمائے ہیں کہ میں ہی مختار کل، مشکل کشا ہوں۔ فرمایا:
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَى قُلُوبِكُمْ
(الأنعام: 46)
کہو اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت کو چھین لے اور تمہارے دل پر مہر لگا دے۔
مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِهِ
(الأنعام: 46)
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الہ ہے جو یہ چیزیں تمہیں لا کر دے؟
انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ
(الأنعام: 46)
دیکھو ہم آیات کو کیسے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں پھر بھی وہ منہ موڑتے ہیں۔

ان تمام دلائل سے واضح ہوا کہ جلالی صاحب کا یہ اعتراض کہ لا إله إلا الله کا معنی مشکل کشا، حاجت روا، داتا وغیرہ کرنا درست نہیں بے بنیاد ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے