کلمہ طیبہ، شرک سے نجات اور جنت میں دخول کی حقیقت
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ 160

سوال

کیا کلمہ پڑھنے والا جنتی ہے؟ اگر جنتی ہے تو کیا یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ اگر ہاں تو سورت اور آیت کا حوالہ دیں۔

جواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

یقیناً یہ بات صحیح ہے کہ کلمہ "لا إله إلا الله” اخلاصِ دل کے ساتھ پڑھنے والا جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ یہ مضمون صحیح بخاری سمیت دیگر معتبر احادیث میں موجود ہے۔ البتہ دخولِ جنت دو صورتوں میں ہوگا:

کچھ لوگ ابتدا ہی میں جنت میں داخل ہوں گے۔

کچھ اپنے کبیرہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل کیے جائیں گے۔

کلمہ طیبہ پڑھنے کا مطلب صرف زبان سے الفاظ دہرانا نہیں، بلکہ دل سے توحید کو ماننا اور شرک سے مکمل اجتناب کرنا ہے۔

قرآن مجید کی تائید

اس حقیقت کی تائید قرآنِ حکیم کی کئی آیات سے ہوتی ہے:

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (النساء: ۴۸)
"اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا، ہاں اس کے علاوہ دوسرے گناہ جس کے لیے چاہے معاف فرما دے۔”

اس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر مشرک اللہ کی مغفرت سے مایوس نہ ہو۔

کبیرہ گناہوں سے اجتناب

قرآن میں فرمایا گیا ہے:
﴿إِن تَجْتَنِبُوا۟ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ﴾ (النساء: ٣١)
"اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تمہاری چھوٹی برائیاں مٹا دیں گے۔”

اس سے واضح ہوا کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے والا اللہ کی معافی کا زیادہ حق دار ہے۔

جنت کی حرمت مشرک پر

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾ (المائدۃ: ۷۲)
"جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے تو اللہ اس پر جنت کو حرام قرار دیتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔”

اس آیت سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جنت ہمیشہ کے لیے صرف مشرک پر حرام ہے۔ باقی مومنین—even اگر وہ گناہگار ہوں—بالآخر جنت میں داخل ہوں گے۔

قرآن و حدیث کی وضاحت

اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تشریح و توضیح کا کام اپنے محبوب ﷺ کے سپرد کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ (النحل: ۴۴)
"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر (کتاب) اتاری تاکہ آپ لوگوں کے لیے واضح کریں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔”

لہٰذا مذکورہ احادیث دراصل انہی آیاتِ قرآنیہ کی تفسیر ہیں، جنہیں قبول کرنا ضروری ہے۔

کلمہ کا صحیح مطلب

"لا إله إلا الله” کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ نہ کوئی فرشتہ، نہ نبی، نہ کوئی اور مخلوق—سب اللہ کی ذات و صفات میں، اس کے اختیارات میں، کائنات کے نظام میں اس کے شریک و ثانی نہیں۔

﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱)
"اس جیسا کوئی نہیں، وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔”

﴿وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (الإخلاص: ۴)
"اور نہ ہی اس کا کوئی ہم پلہ ہے۔”

کلمہ پر ایمان کی شرائط

جو شخص دل سے اس کلمہ پر ایمان رکھتا ہے، وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ:

اللہ ہی خالق، مالک اور رازق ہے۔

بیماری سے شفا دینے والا، دعا قبول کرنے والا اور ہر چیز پر قادر صرف اللہ ہے۔

حلال و حرام کا فیصلہ کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔

عبادات کی تمام اقسام کا مستحق صرف اللہ ہے۔

نفع و نقصان، موت و زندگی کا مالک اللہ ہے۔

تقدیر پر ایمان رکھتا ہے کہ جو کچھ ہوا، ہو رہا ہے اور ہوگا، سب اللہ کے علم و منصوبے کے مطابق ہے۔

اسی طرح ایمان کے دیگر اجزاء پر ایمان رکھنا بھی ضروری ہے:

تمام انبیاء و رسل اور کتبِ سماوی کو ماننا۔

یہ عقیدہ کہ یہ سلسلہ رسول اللہ ﷺ اور قرآنِ کریم پر ختم ہوا۔

آخرت پر ایمان رکھنا کہ سب انسان دوبارہ زندہ ہوکر اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔

ملائکہ پر ایمان۔

نماز، روزہ وغیرہ جیسے فرائض کو ماننا اور ان پر ایمان رکھنا۔

جن چیزوں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، انہیں حرام ہی ماننا۔

شرک کے مظاہر

جو شخص ان ارکان میں سے کسی کا انکار کرتا ہے، یا اللہ کی خاص صفات کسی اور کو دیتا ہے (جیسے کسی کو عالم الغیب یا مشکل کشا سمجھنا)، وہ مشرک ہے۔

اسی طرح:

انبیاء، کتب، فرشتوں، تقدیر، یا آخرت کا انکار کرنے والا۔

فرائض کا انکار کرنے والا۔

حرام کو حلال سمجھنے والا۔

یہ سب شرک میں شامل ہیں۔

موحد اور گناہگار کا فرق

اگر کوئی شخص ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے، فرائض کو مانتا ہے اور حرام کو حرام ہی سمجھتا ہے، لیکن بشری کمزوری کے سبب کوتاہی یا گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، تو وہ مشرک نہیں بلکہ موحد ہے۔

ایسا شخص فاسق و گناہگار کہلائے گا۔

اگر وہ توبہ کرے، نادم ہو اور اپنی اصلاح کرے تو اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

اگر بغیر توبہ دنیا سے رخصت ہوا تو وہ اللہ کی مشیت کے تحت رہے گا:

اللہ چاہے تو فضل سے معاف کر کے جنت میں داخل کر دے۔

یا چاہے تو کچھ مدت جہنم میں رکھ کر پھر جنت میں داخل کرے۔

غلط فہمی کا ازالہ

آج کے دور میں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف زبان سے "لا إله إلا الله” پڑھ لینے سے آدمی موحد اور جنتی بن جاتا ہے، چاہے وہ:

پیروں اور قبروں کی پوجا کرے۔

مردوں سے مرادیں مانگے۔

نماز، روزہ جیسے فرائض کا انکار کرے۔

زنا، چوری، شراب نوشی، سود اور رشوت وغیرہ کو حلال سمجھے۔

ایسا عقیدہ بالکل باطل ہے۔

مشرکین مکہ کی حقیقت

مکہ کے کفار بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ یہ بت دراصل صالحین اور بزرگانِ دین کے مجسمے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی روحیں خوش ہوکر اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گی:

﴿وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾ (یونس: ۱۸)
"اور وہ کہتے تھے کہ یہ ہمارے اللہ کے ہاں سفارشی ہیں۔”

آج کل کے بعض مسلمان قبروں کو پوجتے ہیں۔ غور کریں! ان دونوں میں کیا فرق رہ گیا؟

کلمہ کے تقاضے

اگر "لا إله إلا الله” کا مطلب صرف زبان سے الفاظ ادا کرنا ہوتا، تو پھر ابو جہل اور ابو لہب جیسے کفار کے لیے بھی اسلام لانا نہایت آسان تھا۔
مگر وہ عربی زبان جانتے تھے، کلمہ کے معانی و تقاضوں کو سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس کلمہ کو ماننے کے بعد زندگی اس کے مطابق گزارنی ہوگی۔ یہی چیز ان کے لیے مشکل تھی، اسی وجہ سے وہ ایمان نہ لا سکے۔

آج بعض مسلمان جنت کو اتنا سستا کیوں سمجھ بیٹھے ہیں؟

جہنم کی آگ کی شدت

خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص صحیح معنی میں موحد ہے، وہ نیک ہو یا گناہگار، بالآخر جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ چاہے ابتدا ہی میں، یا پھر اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد۔

لیکن ہر مومن کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے کئی گنا زیادہ شدید ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّ‌ۭا﴾ (التوبہ: ٨١)
"کہہ دو جہنم کی آگ زیادہ سخت گرم ہے۔”

صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"دنیا کی آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔”
(صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة النار وأنها مخلوقة، رقم الحدیث: 2365)

یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے 69 درجے زیادہ تیز ہے۔ دنیا کی آگ میں آدمی ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا، تو جہنم کی آگ میں کیسے رہے گا، خواہ مدت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو؟

نصیحت اور تنبیہ

لہٰذا انسان کو چاہیے کہ دنیا میں ہی:

اپنے گناہوں پر نادم ہو کر سچی توبہ کرے۔

اعمالِ صالحہ کے ذریعے اپنی اصلاح کرے۔

اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور فضل کا امیدوار رہے۔

تاکہ قیامت کے دن اللہ اپنے کرم سے بغیر عذاب کے جنت میں داخل فرما دے۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے