سوال
اگر کوئی کلاس فیلو ہمیں صرف اس بنیاد پر کہ ہم کچھ دینی باتیں کرتے ہیں یا دین پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، "مذہبی” سمجھنے لگے اور ہماری ذاتی کمزوریوں یا ناپختگی کی وجہ سے دین سے بدظن ہو جائے، تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اسی طرح اگر کوئی شخص دینی اختلافات یا معاشرتی تعصبات دیکھ کر دین سے بالکل متنفر ہو جائے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اور اسلام کی حقانیت پر ہی شک کرنے لگے، تو ایسے شخص کو کیسے سمجھایا جائے، جب کہ وہ ہماری بات سننے کے لیے بھی تیار نہ ہو؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سب سے پہلے، ایسے شخص کو واضح الفاظ میں یہ سمجھانا ضروری ہے کہ ہم عالم نہیں ہیں، بلکہ جتنا علم رکھتے ہیں، اسی کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں کسی کا آئیڈیل نہیں بننا چاہیے، کیونکہ آئیڈیل صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ایسے شخص کو بھی چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور دین کو لوگوں کے رویوں کی بنیاد پر نہ پرکھے۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام مسئلہ یہ ہے کہ لوگ دین کو اپنے من گھڑت طریقے سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور جب انہیں کسی مشکل یا تضاد کا سامنا ہوتا ہے، تو وہ دین سے دور ہونے کے بہانے تلاش کرنے لگتے ہیں۔
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّعۡبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرۡفٍ”
(سورة الحج: 11)
"اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے۔”
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان منافقین کا ذکر فرما رہے ہیں جو دین کو کسی کنارے پر رکھ کر عبادت کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی بھاگنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو دین کے مسائل کو لے کر بہانے بازی کرتے ہیں اور دین سے دوری اختیار کر لیتے ہیں، حالانکہ اس سے نقصان صرف انہی کا ہوتا ہے۔
ہمارا کردار
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دین کو درست انداز میں پیش کریں اور اپنے رویے کو بہتر بنائیں تاکہ کوئی ہماری ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے دین سے بدظن نہ ہو۔ تاہم، ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہدایت دینا ہمارا کام نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر منحصر ہے۔ ہمیں اپنی کوشش کرنی چاہیے، مگر کسی کے دل میں ہدایت ڈالنا ہمارے اختیار میں نہیں۔