کفار کے ساتھ مشروط اور مدت معین صلح کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

كفار کے ساتھ صلح کرنا جائز ہے اگرچہ مشروط ہی ہو یا ایسی مدت تک جو زیادہ سے زیادہ دس سال تک ہو سکتی ہے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا [الأنفال: 61]
”اگر وہ (کفار ) صلح کرنا چاہیں تو تم بھی صلح کر لو .“
➋ میثاق مدینہ (یہود سے معاہدہ ) اس کی دلیل ہے ۔
[سيرة ابن هشام: 167/2 – 172 ، عيون الأثر: 197/1 – 198 ، صحيفة المدينة المنورة: ص / 99]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ سے صلح کی (یعنی صلح حدیبیہ ) ۔
[مسلم: 1784 ، كتاب الجهاد والسير: باب صلح الحديبية فى الحديبية ، عبد الرزاق: 343/5 ، احمد: 268/3 ، سيرة ابن هشام: 439/3 ، فتح الباري: 129/11]
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کے وقت یہ شرط لگائی کہ تم میں سے جو کوئی ہمارے پاس آئے گا ہم اسے واپس نہیں کریں گے اور ہمارا کوئی آدمی تمہارے پاس آ جائے تو تم اسے ہمارے پاس واپس لوٹا دو گے ۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم یہ لکھ لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ! جو شخص ہم میں سے ان کے پاس چلا جائے گا اسے اللہ تعالیٰ نے دور کر دیا ہے اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ضرور کشائش اور کوئی راستہ نکال دے گا ۔“
[مسلم: 1784 ، كتاب الجهاد والسير: باب صلح الحديبية فى الحديبية ، احمد: 268/3]
➋ حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان سے صلح حدیبیہ کے متعلق ایک طویل حدیث مروی ہے اور اس میں ہے کہ :
هذا ما صالح عليه محمد بن عبدالله ، سهيل بن عمرو على وضع الحرب عشر سنين
”یہ وہ (دستاویز ) ہے جس پر محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن عمرو سے صلح کی ہے کہ دس سال جنگ بند رہے گی ۔“
[بخاري: 2731 ، 2732 ، 1694 ، 1695 ، كتاب الشروط: باب الشروط فى الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وكتابة الشروط ، أبو داود: 2765]
(امیر صنعانیؒ ) اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ کفار سے معین مدت کے لیے صلح کرنا جائز ہے ۔
[سبل السلام: 4/4 – 18]
❀ اس بات پر مصالحت کہ کفار سے کوئی شخص اگر مسلمان ہو کر آئے تو اسے واپس کیا جائے گا (اگرچہ ) اس میں اختلاف ہے لیکن برحق بات یہ ہے کہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی وجہ سے جائز ہے ۔
[الروضة الندية: 761/2]
(احناف ) یہ صلح درست نہیں ۔
[نيل الأوطار: 113/5]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے بعد آنے والی خواتین کو واپس نہیں کیا کیونکہ صلح مردوں کے حق میں ہوئی تھی عورتوں کے حق میں نہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرما دی:
فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ [الممتحنة: 10]
”ان عورتوں کو کفار کی طرف مت لوٹاؤ ۔ “
[بخاري: 2711 ، 2312 ، بيهقي: 170/7 ، شرح السنة: 647/5 ، الأم: 259/5 ، سبل السلام: 1804/4 ، نيل الأوطار: 118/5]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے