کعب بن اشرف کے قتل پر اعتراضات کا تحقیقی اور شرعی تجزیہ
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 130

سوال

حدیث کے منکرین کی ایک تنقید کا محققانہ جائزہ

مولوی معین الدین احمد صاحب نے "تاریخ اسلام” کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی ہے، جس پر مولانا سید سلیمان ندوی نے تبصرہ کیا ہے۔ یہ کتاب دارالمصنفین، اعظم گڑھ سے شائع ہوئی۔ کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے محمد بن مسلمہؓ کو مقرر فرمایا، جنہوں نے تدبیر اور چالاکی سے اس کا کام تمام کیا۔

اس روایت پر دہلی سے شائع ہونے والے رسالے "طلوع اسلام” نے شدید تنقید کرتے ہوئے اسے جھوٹی اور مکروہ روایت قرار دیا۔ جبکہ مجھے یاد ہے کہ یہ واقعہ میں نے اخبار "اہل حدیث” میں بخاری کے حوالہ سے پڑھا تھا۔ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں کہ یہ واقعہ تاریخ یا کسی معتبر حدیث کی کتاب میں موجود ہے؟ نیز کیا اس قسم کی کارروائی شرعاً درست ہے؟

الجواب

الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، اما بعد:
میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس واقعے کی تفصیل معتبر مصادر کی روشنی میں پیش کی جائے تاکہ حقیقت واضح ہو، اور اس کے بعد تنقید کا علمی جائزہ لیا جا سکے۔

واقعہ: قتلِ کعب بن اشرف

یہ واقعہ ربیع الاول 3 ہجری کا ہے۔ معتبر کتب جن میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے ان میں شامل ہیں:

صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب قتل کعب بن اشرف)
صحیح مسلم (کتاب الجہاد والسیر، باب قتل کعب بن اشرف طاغوت الیہود)
فتح الباری، سیرۃ حلبیہ، سیرۃ ابن ہشام، طبقات ابن سعد، ابوداؤد، ترمذی وغیرہ۔

کعب بن اشرف ایک یہودی شاعر تھا جو قبیلہ طَیّ کے سردار کا بیٹا تھا۔ اُس نے نبی کریم اور مسلمانوں کے خلاف سخت دشمنی، شاعری، سازش، اور مکہ کے قریش سے خفیہ معاہدات کیے۔ ان تمام سازشوں کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، ان کی عزت کو مجروح کرنا، اور نبی کریم کو قتل کرانا تھا۔

جب یہ دشمنی حد سے بڑھ گئی تو نبی کریم نے صحابہ سے فرمایا:

"کون ہے جو کعب کو ختم کر کے اللہ اور اس کے رسول کو راحت دے؟”

محمد بن مسلمہؓ نے خدمت کے لیے آمادگی ظاہر کی اور بعض حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے تدبیر کے ساتھ کعب کو قتل کر دیا۔

شرعی پہلو اور نتیجہ

◈ کعب: مسلمانوں سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔
◈ قریش مکہ کو نبی کریم کے خلاف ابھارتا رہا۔
◈ نبی کریم اور صحابہؓ کی ہجو کرتا رہا۔
◈ مسلم خواتین کی توہین اور ان پر طعن و تشنیع کی۔
◈ نبی کریم کے قتل کی سازش کی۔

ایسے شخص کو خفیہ طریقے سے قتل کرنا نہ صرف حکمتِ عملی کا تقاضا تھا بلکہ فتنہ و فساد کے خاتمے کا مؤثر ذریعہ بھی۔

نبی کریم نے صرف کعب کو نشانہ بنایا، اس کی پوری قوم کو نہیں، کیونکہ وہ اصل سرغنہ اور فتنہ پرور تھا۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1