سوال
اگر کوئی شخص حج کے لیے جائے اور وہ فارغ اوقات میں کعبہ کا طواف ہی کرتا رہے تو یہ عمل کرنا کیسا ہے؟ اور بعض لوگ میقات جا کر وہاں سے احرام باندھ کر اپنے لیے یا اپنے والدین یا عزیز رشتہ داروں کے لیے عمرہ کرتے ہیں۔ یہ عمل کیسا ہے؟ براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
(محمد فیاض دامانوی بریڈفورڈ، انگلینڈ)
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّمَا الطَّوَافُ صَلَاةٌ، فَإِذَا طُفْتُمْ، فَأَقِلُّوا الْكَلَامَ”
’’طواف تو نماز ہے، لہٰذا جب تم (بیت اللہ کا) طواف کرو تو باتیں تھوڑی کیا کرو‘‘
(مسند احمد 3/414، ح5423، وسندہ صحیح)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
’’طواف میں باتیں تھوڑی کیا کرو۔ اور (اس حالت میں) تم تو نماز میں ہوتے ہو۔‘‘
(سنن نسائی: 2926، وسندہ صحیح موقوف)
طواف کے حوالے سے وضاحت
◈ بیت اللہ کا طواف نماز کے حکم میں ہے اور یہ عبادت پوری دنیا میں صرف مکہ مکرمہ (بیت اللہ) میں ہوتی ہے۔
◈ حاجی یا معتمر (عمرہ کرنے والے) کو چاہیے کہ اپنے مناسک سے فارغ ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ وقت بیت اللہ میں گزارے۔
◈ مسجد الحرام میں داخل ہونے کے بعد تحیۃ المسجد (دو رکعتیں) پڑھنے کے بعد حتی الوسع طواف ہی کرتا رہے۔
◈ اگر طواف کرتے کرتے تھک جائے تو بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت یا ذکر و اذکار میں مشغول رہے۔
میقات سے عمرہ کرنے کا مسئلہ
◈ تنعیم سے جو مروجہ عمرے کئے جاتے ہیں، ان پر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے۔
◈ لیکن اس استدلال میں نظر (غور کرنے کی ضرورت) ہے۔
◈ بہتر یہی ہے کہ میقات سے ہی عمرہ کیا جائے۔
◈ حائضہ کے علاوہ دوسرے لوگ تنعیم (مسجد عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے عمرہ نہ کریں۔
◈ اہل مکہ کے صحیح العقیدہ علماء کی بھی یہی تحقیق ہے۔
◈ واللہ اعلم
درج بالا حدیث سے مزید دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں
➊ نماز میں کلام کرنا جائز نہیں۔
➋ حالت طواف میں ضروری کلام کرنا جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب