سوال
ہم نے عرب امارات میں ایک ویلفیئر تنظیم "کشمیر ویلفئیر ایسوسی ایشن” قائم کی ہے، جہاں ہر ممبر سالانہ 120 درہم جمع کراتا ہے۔ اس کا مقصد حادثات یا موت کی صورت میں مدد فراہم کرنا ہے، جیسے موت کی صورت میں 30,000 درہم ورثاء کو دیے جاتے ہیں اور زخمی ہونے کی صورت میں اسپتال کے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ 10-15 سال سے جاری ہے، اور اب تک جمع شدہ رقم تقریباً 6-7 لاکھ درہم ہو چکی ہے، جو بینک میں رکھی گئی ہے اور کسی ایک فرد کی ملکیت نہیں بلکہ تمام کشمیری ممبران کا مشترکہ حصہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟ اور یہ عمل شریعت کے مطابق جائز ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
الجواب
1. ویلفئیر تنظیم کا قیام اور اس کا عمل:
آپ کے عمل میں کوئی ناجائز پہلو نظر نہیں آتا۔ یہ ایک بہترین اور قابلِ تعریف تعاون کی شکل ہے، جس کے ذریعے مشکل وقت میں افراد کی مدد کی جا رہی ہے۔ اسلام میں ایسے تعاون کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
2. زکوٰۃ کے واجب ہونے کا حکم:
صورتِ مسؤلہ میں اس جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ:
- یہ رقم کسی ایک فرد کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔
- زکوٰۃ کے وجوب کے لیے ملکیت کا ہونا شرط ہے۔
- زکوٰۃ افراد پر فرض ہوتی ہے، جبکہ یہ رقم تمام افراد کی مشترکہ امدادی رقم ہے۔
- یہ رقم بذاتِ خود ایک امدادی مقصد کے لیے مختص ہے، جس طرح زکوٰۃ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، اسی طرح اس فلاحی رقم پر بھی عدمِ ملکیت کی وجہ سے زکوٰۃ لازم نہیں۔
اختتام:
آپ کا یہ عمل شرعی لحاظ سے درست اور جائز ہے، اور اس میں تعاون کی خوبصورت مثال موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس نیک نیتی کو قبول فرمائے اور اس میں برکت عطا کرے۔