سوال :
کیا کسی آدمی کے لیے تعظیماً کھڑا ہونا ٹھیک ہے، کھڑا نہ ہونے پر قرآن و حدیث کا کیا حکم ہے؟
جواب :
کسی بھی شخص کے لیے اپنی جگہ تعظیماً کھڑا ہونا درست نہیں ہے، ہاں آگے بڑھ کر اگر استقبال کریں تو اس کی اجازت ہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
”جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۔ “
(ترمذی کتاب الأدب باب ما جاء في كراهية قيام الرجل للرجل 2755، ابوداؤد 5229)
ابو مجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک گھر میں داخل ہوئے ، اس گھر میں ابن عامر اور ابن الزبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے تو ابن عامر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور ان الزبیر رضی اللہ عنہما بیٹھے رہے، ابن عامر کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹھ جاؤ، بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ بندے اس کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے ہو جائیں وہ اپنا گھر آگ میں بنائے ۔“
(شرح السنة 295/12، مسند أحمد 93/2-100، ح: 17042-16970)
دوسری روایت میں ہے:
”جو آدمی اس بات کو پسند کرے کہ اولاد آدم اس کے لیے قیام کی صورت میں مطیع ہو، اس کے لیے آگ واجب ہے۔ “
(طبراني كبير 412/19، مشكل الآثار 38/2-39)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے زیادہ کوئی شخص محبوب و پیارا نہ تھا اور جب صحابہ آپ صلى الله عليه وسلم کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلى الله عليه وسلم اس بات کو ناپسند فرماتے تھے
(ترمذی کتاب الأدب باب ما جاء في كراهية قيام الرجل للرجل 2754)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی کے لیے قیام کرنا درست نہیں، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ساری کائنات سے زیادہ محبوب تھے، ان کے لیے بھی قیام نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لیے کہ نبی صلى الله عليه وسلم اس بات کو ناپسند کرتے تھے اور آپ نے اس کے لیے وعید بھی بیان کی ہے تو پھر کوئی ٹیچر، پروفیسر، وکیل، بڑا وزیر، بریگیڈیئر اور جرنیل کس طرح اس قیام کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ کسی کے لیے قیام نہ کرنے والے کو برا کہتے ہیں انھیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی پاکیزہ تعلیمات پر غور و خوص کرنا چاہیے اور شرع کی مخالفت سے باز رہنا چاہیے۔