کسی عذر کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان النبى إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم يجمع بينهما وإذا زاغت صلى الظهر ثم ركب
”اگر سورج ڈھلنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے لیے روانہ ہوتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک موخر کر لیتے پھر انہیں جمع کر کے پڑھ لیتے اور اگر سورج ڈھل گیا ہوتا تو ظہر کی نماز پڑھتے، پھر سوار ہوتے ۔“
ایک اور صحیح روایت میں یہ لفظ ہیں : صلي الظهر والعصر ” ( اگر سورج ڈھل گیا ہوتا ) تو ظہر اور عصر دونوں کو جمع کر کے پڑھتے (پھر سفر پر روانہ ہوتے)۔“
[صحيح : إرواء الغليل 28/3 ، أبو داود 1206 ، كتاب الصلاة : باب الجمع بين الصلاتين ، ترمذي 553 ، دار قطني 392/1 ، أحمد 237/5]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی عذر کے بھی نمازوں کو جمع کیا ہے :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
جمع رسول الله بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر وفي رواية من غير خوف ولا سفر
[مؤطا 144/1 ، كتاب قصر الصلاة فى السفر: باب الجمع بين الصلاتين فى الحضر والسفر ، مسلم 705 ، أبو ا داود 1210 ، نسائي 602 ، 601 ، ابن خزيمة 971 ، أحمد 283/1]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع کیا ۔“
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ”بغیر کسی خوف اور سفر کے جمع کیا ۔“
یہاں یہ بات یاد رہے کہ نمازوں کو جمع کرنے کی دو صورتیں ہیں:
➊ ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت میں اس طرح ادا کرنا کہ ابھی صرف ایک نماز کا وقت ہو دوسری کا نہ ہو مثلاً عصر کو ظہر کے ساتھ اس کے ابتدائی وقت میں پڑھ لینا۔ یہ جمع صرف مسافر کے لیے جائز ہے۔
➋ پہلی نماز کو مؤخر کر کے آخری وقت میں اور دوسری کو جلدی کر کے پہلے وقت میں پڑھ لیتا اس طرح بظاہر دونوں نمازیں جمع بھی ہو جائیں گی اور فی الحقیقت اپنے اپنے وقتوں میں ادا ہوں گی، اس جمع کو جمع صوری کہتے ہیں اور جس روایت میں بغیر کسی عذر کے نمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے اس سے یہی جمع مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
اصليت مع النبى الظهر والعصر جميعا والمغرب والعشاء جميعا أخر الظهر وعجل العصر وأخر المغرب عجل العشاء
[مسلم 1152 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها : باب الجمع بين الصلاتين فى الحضر]
” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر و عصر کی نماز اکٹھی ادا کی اور مغرب و عشاء کی نماز اکٹھی ادا کی (وہ اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کو مؤخر کر دیا اور عصر کو جلدی پڑھ لیا اور مغرب کو مؤخر کر دیا اور عشاء کو جلدی پڑھ لیا۔ “
(شوکانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار 227/2]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[تحفة الأحوذى 585/1]
دوران بارش اور حالت مرض میں بعض علماء نے (مسافر کی طرح نماز ) جمع کرنے کی اجازت دی ہے مثلاً امام احمدؒ، امام شافعیؒ اور امام اسحاق رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ تا ہم امام شافعی کے مشہور قول کے مطابق مریض کے لیے نمازیں جمع کرنے کی ممانعت منقول ہے۔
[تحفة الأحوذى 587/1 ، فتح البارى 231/2]
(راجح) دوران بارش یا حالت مرض میں (مسافر کی طرح یعنی ایک وقت میں ) نمازیں جمع کرنا درست نہیں ( کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں نمازیں جمع فرماتے اور دوسرے مریض صحابہ کو بھی اس کی تلقین کرتے حالانکہ ایسا کچھ منقول نہیں ) البتہ جمع صوری (اپنے اپنے وقت میں نمازیں پڑھنے ) کا جواز بہر حال موجود ہے۔
[السيل الحرار 193/1]
(احناف) سفر میں بھی نماز میں جمع کرنا جائز نہیں۔ ان کی دلیل ضعیف روایت ہے جو کہ قابل حجت نہیں۔
[فيض القدير 113/6 ، ضعيف ترمذي 28 ، الضعيفة 4581 ، ضعيف الجامع 5546]