کرسمس ڈے کی مبارکباد دینے والے کی امامت کا کیا حکم ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کرسمس ڈے کی مبارکباد دینے والے کی امامت کا کیا حکم ہے؟

جواب:

کرسمس ڈے کی مبارکباد دینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، ایسا شخص امامت کا اہل نہیں، اس کے دل میں اسلام کی حمیت اور غیرت نہیں۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
”کفار کی عیدوں میں ان کی ریس کرنا جائز نہیں، لہذا کسی مسلمان کا بھی ان (رسومات) میں تعاون نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے منع کیا جائے۔ جس نے کفار کی عیدوں میں کسی خلاف معمول دعوت کا اہتمام کیا، اس کی دعوت قبول نہیں کی جائے گی۔ جس مسلمان نے ان عیدوں میں کسی کو خلاف معمول تحفہ دیا، وہ تحفہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ خصوصاً جب وہ تحفہ ان کے ساتھ مشابہت کا عکاس ہو۔ نہ ہی کسی ایسے کھانے یا لباس وغیرہ کی خرید و فروخت جائز ہے، جو اس عید میں ان کی مشابہت کے لیے معاون ثابت ہو، کیونکہ یہ گناہ میں تعاون ہے۔“
(اقتضاء الصراط المستقيم: 519/2)
❀ علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421ھ) سے پوچھا گیا: کیا کفار کو کرسمس ڈے کی مبارکباد دی جا سکتی ہے؟ اگر وہ ہمیں مبارکباد دیں تو ہم جواباً انہیں کیا کہیں؟ کیا ان کی مجالس میلاد میں شرکت کی جا سکتی ہے؟ کیا غیر ارادی طور پر مذکورہ امور میں کوئی کام کرنا جائز ہے؟ معاملہ شناسی، ظاہری وضع داری، حرج دور کرنے یا کسی اور مصلحت کے پیش نظر ایسا کرنا کیسا ہے؟ کیا اس مسئلہ میں ان کی مشابہت جائز ہے؟
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے جواب دیا:
کفار کو کرسمس یا کسی اور عید کی ”مبارک باد“ دینا بالاتفاق حرام ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ (احکام اہل الذمہ: 1/441) فرماتے ہیں: ”کفار کو ان کے مخصوص شعار پر ”مبارک باد “دینا بالاتفاق حرام ہے۔ مثلاً انہیں عید اور روزوں کے موقع پر ”عید مبارک“ یا ”یہ عید مبارک ہو“ کہنا۔ اس جیسے الفاظ کہنے والا کافر نہیں تو حرام کا مرتکب ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے، جیسے اسے صلیب پر سجدہ کرنے پر ”مبارک باد “دے رہا ہے۔ بلکہ اللہ کے ہاں یہ تو شراب نوشی، قبل از زنا جیسے جرائم پر مبارکباد دینے سے بھی بڑا جرم اور گناہ ہے۔ کئی دین کے بے قدرے اس جرم کا شکار ہو گئے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ یہ کس قدر فتیح حرکت ہے۔ یاد رہے کہ کفر، بدعت یا کسی اور گناہ پر ”مبارک باد “دینے والا اللہ کے غضب اور ناراضی کا قصد کر رہا ہے۔“ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کو ان کی مذہبی عیدوں کی مبارکباد دینا حرام ہے، کیونکہ اگرچہ وہ اس عید پر دل سے راضی نہیں ہے، لیکن مبارکباد دینے سے بالواسطہ راضی ہونا اور اقرار کرنا لازم آتا ہے۔ مسلمان کے لیے کفار کے شعار پر خوش ہونا یا دوسروں کو ”مبارک باد “دینا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کرتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ﴾
”اگر تم بھی کفر پر اتر آؤ اللہ کو پھر بھی کسی کی پرواہ نہیں، پر اللہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا۔ شکر گزاری تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔“نیز فرمان الہی ہے: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
”آج میں نے تمہارے دین کو پایہ تکمیل کو پہنچا دیا ہے اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کر لیا ہے۔“ کافر مسلمان کا شراکت دار ہو یا نہ ہو، ہر دو صورتوں میں انہیں ”مبارک باد “دینا حرام ہے۔
کفار اپنی عید پر ہمیں مبارکباد دیں، تو ہم جواباً کچھ نہیں کہیں گے، کیونکہ ایک تو یہ ہماری عید نہیں ہے، دوسرے یہ کہ یہ عید، اللہ کو پسند نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ یا تو یہ عید ان کی بدعی عید ہوگی یا مذہبی، جسے دین اسلام نے منسوخ کر دیا۔ جس کی بابت ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ”جو اسلام کے علاوہ کسی اور کو دین بنائے گا، اس کا کوئی عمل قبول نہ ہوگا اور آخرت میں خائب و خاسر ہوگا۔“ مسلمان کے لیے کفار کی عید کے موقع پر دعوت قبول کرنا حرام ہے۔ یہ تو انہیں ”مبارک باد “دینے سے بڑا گناہ ہے، کیونکہ اس سے ان کی بدعت میں شراکت لازم آتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے لیے کفار کی مشابہت میں اس موقع پر محفل میلاد کا انعقاد، تحائف کا تبادلہ، شیرینی تقسیم کرنا، رنگ برنگے کھانے بنانا، کاروبار بند کر دینا یا کوئی اور معمول سے ہٹ کر حرکت کرنا بھی حرام ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ اسی میں سے ہوگا۔“شیخ الاسلام، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب (اقتضاء الصراط المستقيم: 546/1) میں فرماتے ہیں: ”کفار کی کسی بھی عید میں ان کی مشابہت انہیں دلی خوشی فراہم کرتی ہے، جب کہ وہ باطل پرست ہیں۔ بسا اوقات تو انہیں اس سے موقع پرستی اور کمزوروں کو اپنی چنگل میں لے لینے کی امیدیں لگ جاتی ہیں۔“ مذکورہ کاموں میں کوئی بھی کام کرنے والا گناہ گار ہے، چاہے ایسا وہ چاہتے ہوئے کرے یا نہ چاہتے ہوئے، وضع داری اور لحاظ کرتے ہوئے کرے یا کسی اور وجہ سے۔ کیونکہ یہ واضح طور پر دین کو کمزور کرنے، کفار کی قوت قلبی اور انہیں اپنے دین پر فخر کرنے کا موقع دینے کی سازش ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو غلبہ اسلام عطا فرمائے، اسی پر کاربند رکھے اور کافروں کے مقابلے میں مدد فرمائے۔ بلاشبہ وہ غالب اور قوی ہے۔“
(فتاوى العقيدة، ص 246-248، مجموع فتاوى و رسائل العثيمين: 44/3-46)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے