کراہت کے اوقات یہ ہیں فجر سے لے کر سورج کے اچھی طرح طلوع ہونے تک
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کراہت کے اوقات یہ ہیں فجر سے لے کر سورج کے اچھی طرح طلوع ہونے تک

➊ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنے اور میت کی تدفین سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع فرمایا کرتے تھے :
حسين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تزول الشمس وحين تتضيف الشمس للغروب
” جب آفتاب طلوع ہو رہا ہو حتی کہ بلند ہو جائے، جب سورج نصف آسمان پر ہوتا وقتیکہ وہ ڈھل جائے اور جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہو جائے۔“
➋ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :
والا صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد العصر حتى تغيب الشمس
[بخاري 586 ، كتاب مواقيت الصلاة : باب لا تتحرك الصلاة قبل غروب الشمس ، مسلم 827 ، أبو عوانة 380/1 ، نسائي 567 ، أحمد 95/3 ، أبو داود 2417 ، ابن ماجة 1249 ، بيهقى 452/2]
”صبح کی نماز ادا کر لینے کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز (جائز) نہیں اور اسی طرح نماز عصر ادا کر لینے کے بعد غروب آفتاب تک کوئی دوسری نماز (جائز) نہیں ۔“
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :
كنا ننهى عن الصلاة عند طلوع الشمس وعند غروبها ونصف النهار
” ہمیں طلوع آفتاب کے وقت، غروب آفتاب کے وقت اور آدھے دن کو نماز پڑھنے سے روکا جاتا تھا۔“
[شرح معاني الآثار للطحاوى 304/1]
نصف النہار نماز کی کراہت سے نماز جمعہ مستثنی ہے جیسا کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان كره ان يصلي نصف النهار إلا يوم الجمعة
[ضعيف : ضعيف أبو داود 236 ، كتاب الصلاة : باب الصلاة يوم الجمعة قبل الزوال ، أبو داود 1083 ، ضعيف الجامع 1849 ، المشكاة 1047 ، بيهقى 193/3]
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھے دن کے وقت جمعہ کے دن کے سوا نماز پڑھنا ناپسند کیا ہے۔“
اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے لیکن دوسری حدیث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز جمعہ پڑھتے :
ثــم نــنـصـرف وليس للمحيطان فيني
[صحيح : صحيح أبو داود 961 ، كتاب الصلاة : باب وقت الجمعة ، أبو داود 1085]
” پھر ہم واپس جاتے اور اس وقت دیواروں کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔ “

کیا ان مکروہ اوقات سے مسجد حرام مستثنٰی ہے؟

جس حدیث سے ثابت کیا جاتا ہے کہ گذشتہ ذکر کردہ تین مکروہ اوقات سے مسجد حرام مستثنی ہے وہ یہ ہے:
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
يا بـنـي عبد مناف لا تمنعوا أحدا طاف بهذا البيت وصلى أية ساعة شاء من ليل أو نهار
[صحيح : صحيح ترمذى 688 ، أبو داود 1894 ، كتاب المناسك : باب الطواف بعد العصر ، ترمذي 868 ، نسائي 2924 ، ابن ماجة 1254 ، بيهقى 461/2 ، أحمد 80/4]
”اے عبد مناف کی اولاد ! بیت اللہ کا طواف کرنے والے کسی شخص کو منع نہ کرو اور نہ کسی نماز پڑھنے والے کو ( نماز پڑھنے سے ) خواہ وہ شب و روز کی کسی گھڑی میں یہ کام کرے ۔“
(احمدؒ ، شافعیؒ ، اسحاقؒ ، طحاویؒ) مکہ میں مکروہ اوقات میں بھی نماز و طواف جائز ہے۔
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(عبدالرحمن مبارکپوریؒ) یہی موقف رکھتے ہیں۔
(جمہور ) کراہت کی جانب کو ترجیح دیتے ہوئے ممانعت کی احادیث پر عمل کرتے ہیں۔
(ابوحنیفہؒ ، محمدؒ ، ابو یوسفؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوذى 714/3 – 710 ، الروضة الندية 212/1 ، سبل السلام 238/1]
(نوویؒ) امت کا اجماع ہے کہ عصر کے بعد ممنوع اوقات میں ایسی نماز جس کا کوئی سبب نہ ہو مکروہ ہے اور اس پر بھی امت کا اتفاق ہے کہ ان اوقات میں فرائض کی ادائیگی جائز ہے لیکن ایسے نوافل کی ادائیگی میں اختلاف ہے جن کا کوئی سبب ہو مثلاً تحیتہ المسجد ، سجود التلاوہ ، سجدہ شکر ، نماز عید نماز کسوف اور نماز جنازہ وغیرہ۔
[شرح مسلم للنووى 274/3]
(محمد صبحی حسن حلاق) اس حدیث میں مذکورہ ( مکروہ ) اوقات میں نماز کے جواز کا ثبوت نہیں ہے بلکہ اس میں تو عبد مناف کی اولاد کو صرف اتنا حکم ہے کہ وہ کسی بھی وقت بیت اللہ کا طواف یا نماز پڑھنے والے کو منع نہ کریں۔
[التعليق على الروضة الندية 212/1]
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں اور مزید فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان اوقات میں (نماز سے) ممانعت بیت اللہ کے علاوہ ہے۔ [التعليقات الرضية على الروضة الندية 241/1]
(راجح) شیخ البانیؒ کا قول ہی رائج معلوم ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے