کتے اور بلی کی قیمت (خرید و فروخت) منع ہے
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ التَّاسِعُ: عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ . }
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی کمائی اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا ہے۔
شرح المفردات:

ثمن الكلب: کتوں کی لڑائی یا دوڑ وغیرہ یا ان کی خرید و فروخت سے حاصل کی جانے والی قیمت۔
مهر البعي: فاحشه یا زانیہ جو دولت زنا کے ارتکاب سے کماتی ہے ، اسی طرح رقاصہ ناچ گانے سے جو کمائی کرے وہ بھی اسی میں شامل ہے۔
حلوان الكاهن: علم غیب کا اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والا نجومی اپنے دجل و کذب اور دھوکا و فراڈ کے ساتھ لوگوں سے جو مال بٹورتا ہے ۔
شرح الحدیث:
ایسے کتے کی خرید و فروخت جائز ہے جو کھیتی وغیرہ کی نگرانی کے لیے ہو ، جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نَهى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّورِ ، إِلَّا كَلْبَ صَيْدِ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت (خرید و فروخت) سے منع فرمایا ہے ، سوائے کھیتی کی نگہبانی کرنے والے کتے کے ۔“
سنن النسائي: 4668 اس كي سند جيد ہے۔
(263) صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب ثمن الكلب ، ح: 2237 – صحيح مسلم ، كتاب المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب ، ح: 1567
264 – الْحَدِيثُ الْعَاشِرُ: عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { أَنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَمَنُ الْكَلْبِ خَبِيثٌ . وَمَهْرُ الْبَغِيِّ خَبِيثٌ ، وَكَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِيثٌ }
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتے کی قیمت ناپاک ہے ، فاحشہ کی اجرت ناپاک ہے اور حجام کی کمائی ناپاک ہے ۔
شرح المفردات:
الحجام: اس سے مراد پچھنے لگانے والا، سینگی لگانے والا ۔
شرح الحديث:
ابن دقیق العید رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ لفظ خبيث صراحتاً حرمت پر دلالت نہیں کرتا، اس پر یہ دلیل خارجی بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سینگی لگوائی اور سینگی لگانے والے کو اجرت دینے کا حکم بھی فرمایا ہے۔ [صحيح البخاري: 2158، صحيح مسلم: 1202]
لہذا اگر یہ حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اجرت نہ دیتے۔
[شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: 135/3]
راوى الحديث:
رافع رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی ۔ انصاری صحابی تھے۔ اُحد میں شریک ہوئے ۔ اٹھہتر احادیث کے راوی ہیں۔ مدینہ طیبہ میں 74 ہجری میں وفات پائی۔
(264) صحيح مسلم ، كتاب المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب — ، ح: 4095

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے