کتے ، بلی اور خون کی تجارت جائز نہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کتے ، بلی اور خون کی تجارت جائز نہیں
➊ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهي رسول الله عن ثمن الكلب
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے ۔ “
[بخاري: 2237 ، كتاب البيوع: باب ثمن الكلب ، مسلم: 1567 ، ابو داود: 3481 ، ترمذي: 1276 ، نسائي: 309/7 ، ابن ماجة: 2159 ، أحمد: 118/4 ، دارمي: 170/2 ، شرح معاني الآثار: 51/4 ، شرح السنة: 215/4 ، مسلم: 1569 ، كتاب المساقاة: باب تحريم ثمن الكلب …… ، أحمد: 317/3 ، ابو داود: 3479 ، ترمذي: 1279]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب والسنور
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔“
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهي رسول الله عن ثمن الكلب إلا كلب صيد
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 4353 ، صحيح ابن ماجة: 2161 ، صحيح الجامع: 6946 ، نسائي: 4668 ، ترمذي: 1281 ، شيخ حازم على قاضي نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 1046/3]
(شوکانیؒ ) اگر (استثناء والی ) حدیث قابل حجت ہو تو مطلق کو مقید پر محمول کرتے ہوئے شکاری کتے کے علاوہ باقی کتوں کی تجارت حرام ہو گی ۔
[نيل الأوطار: 512/3]
(امیر صنعانیؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[سبل السلام: 1046/3]
(جمہور، شافعیؒ) کتے کی تجارت مطلقا حرام ہے۔
(ابو حنیفہؒ) کتے کی تجارت مطلقا حرام ہے۔
(عطاءؒ ، نخعیؒ) صرف شکاری کتے کی تجارت جائز ہے۔
[فتح البارى: 179/5 ، نيل الأوطار: 512/3 ، الروضة الندية: 194/2]
(راجح) امام نخعیؒ وغیرہ کا قول راجح ہے کیونکہ گذشتہ سنن نسائی کی صحیح حدیث اس پر شاہد ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے