سوال:
کتنے مال کی وصیت کی جا سکتی ہے؟
جواب:
جس کے وارث ہوں، وہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے، اس سے زائد کی وصیت کرے، تو زائد وصیت نافذ نہ ہوگی۔ نیز کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ البتہ اپنی زندگی میں اپنے منقولہ اور غیر منقولہ مال میں مکمل تصرف کر سکتا ہے، لہذا اگر کوئی چاہے، تو اپنا سارے کا سارا مال یا آدھا مال یا ایک تہائی مال کسی کو دے سکتا ہے۔
❀ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إني رجل ذو مال، وليس يرثني إلا ابنة لي واحدة، أفأتصدق بثلثي مالي؟ قال: لا، قلت: أفأتصدق بنصفه؟ قال: لا، قلت: الثلث؟ قال: الثلث، والثلث كثير، إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس
ایک دفعہ میں مکہ میں اس قدر بیمار ہوا کہ قریب الموت ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور صرف ایک بیٹی ہی میری وارث ہے، کیا میں دو تہائی مال صدقہ کرنے کی وصیت کر دوں؟ فرمایا: نہیں! میں نے عرض کیا: آدھا مال صدقہ کر دوں؟ فرمایا: نہیں! میں نے عرض کیا: ایک تہائی صدقہ کر دوں؟ فرمایا: ایک تہائی (ہو سکتا ہے) لیکن یہ بھی بہت زیادہ ہے۔ اگر آپ اپنے ورثا کو آسودہ حال چھوڑ کر جائیں، تو انہیں تنگ دست چھوڑنے سے بہتر ہے۔
(صحيح البخاري: 6373، صحیح مسلم: 1628، المنتقى لابن الجارود: 947)
❀ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن رجلا أعتق عند موته ستة مملوكين له، لم يكن له مال غيرهم، فدعا بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فجزأهم ثلاثة أجزاء، ثم أقرع بينهم، فأعتق اثنين، وأرق أربعة، وقال فيه قولا شديدا
ایک آدمی نے فوت ہوتے وقت (وصیت کرتے ہوئے) اپنے چھ غلام آزاد کر دیے، جبکہ اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی مال ہی نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر تین حصوں میں تقسیم کیا، پھر ان کے مابین قرعہ ڈال کر دو کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام بنا دیا اور اس آدمی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت الفاظ استعمال کیے۔
(صحيح مسلم: 1668، المنتقى لابن الجارود: 948)
❀ علامہ ابن العربی رحمہ اللہ (543ھ) فرماتے ہیں:
قد اتفق العلماء على أن من له وارث فليس له أن يوصي بأكثر من ثلثه
اس پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ جس کے وارث موجود ہوں، وہ ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا۔
(المسالك في شرح موطأ مالك: 6/482)