سوال
فوت شدہ امیر کا فیصلہ جو کتاب و سنت سے بالاتر ہو، کیا موجودہ امیر حالات کے پیش نظر اسے تبدیل کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
کتاب و سنت کے خلاف کسی فیصلے کو درست کر کے اسے کتاب و سنت کے مطابق کرنا نہ صرف جائز بلکہ فرض اور ضروری ہے۔
اگر کوئی فیصلہ شرع کے خلاف ہو تو حالات کی نزاکت یا کسی مصلحت کے بہانے سے اسے برقرار رکھنا کسی صورت جائز نہیں، کیونکہ ایسا کرنا
تحاکم الی الطاغوت (یعنی غیر شرعی فیصلے کی پیروی) ہے، جو کسی بھی حال میں جائز نہیں۔
غلط فیصلے کو قائم رکھنا طاغوت (شیطان) کی پیروی اور شریعت کی صریح خلاف ورزی ہے، جبکہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾
(الأحزاب: 36)
"اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا۔”
لہٰذا قاضی اور مفتی دونوں پر دو اہم شرعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:
1. طاغوتی فیصلوں سے اجتناب
فتویٰ دیتے وقت یا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں حتی الامکان طاغوتی نظام کی پیروی سے بچنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے نظام کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ﴾
(النساء: 60)
"اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ طاغوت سے کفر کریں۔”
یعنی طاغوتی نظام سے مکمل بیزاری اور بائیکاٹ کا حکم ہے۔
2. عدل و انصاف پر مبنی فیصلے
اسلامی نظامِ عدل کے مطابق فیصلے عدل و انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۭ إِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ﴾
(النساء: 58)
"اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو، بے شک اللہ تمہیں بہترین نصیحت کرتا ہے۔”
اس سے واضح ہوا کہ غلط فیصلے کو درست فیصلے میں بدلنا شرعاً فرض ہے، اور یہ انبیاء و صلحاء کی مسلسل سنت رہی ہے۔
چند واضح مثالیں
(1) حضرت سلیمان علیہ السلام کا اپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کا فیصلہ تبدیل کرنا
قرآنِ مجید میں فرمایا گیا:
﴿وَدَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ ۚ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ﴾
(الأنبیاء: 78)
﴿فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا﴾
(الأنبیاء: 79)
مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں دوسرے کے کھیت میں رات کے وقت داخل ہو کر اس کی کھیتی برباد کر گئیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ بکریاں عارضی طور پر کھیت والے کو دی جائیں تاکہ وہ ان کے دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھائے، اور بکریوں والا کھیت کی مرمت کرے۔
جب کھیت اپنی پہلی حالت پر آجائے تو دونوں اپنی اپنی چیز واپس لے لیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صحیح فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا گیا۔
(تفسیر ابن کثیر، عربی ج3، ص191)
(2) رسول اللہ ﷺ کا غلط فیصلے کو درست کرنا
حضرت ابو ہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے عرض کیا:
"یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کیجئے۔”
واقعہ یہ تھا کہ ایک مزدور نے اپنے مالک کی بیوی سے زنا کیا۔ قوم نے کہا کہ اسے رجم کیا جائے گا۔
لیکن بعد میں علمائے کرام سے معلوم ہوا کہ اس پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
"میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور باندی واپس لوٹا دی جائیں، اور لڑکے کو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے۔”
(صحیح البخاری، ج2، ص1067، ص1008؛ فتح الباری، ج12 ص165، ج13 ص229)
(3) فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کا واقعہ
انہوں نے عرض کیا: "میرے شوہر کو غلاموں نے قتل کردیا، کیا میں اپنے والدین کے گھر عدت گزار سکتی ہوں؟”
ابتدا میں نبی ﷺ نے اجازت دی، مگر تھوڑی دیر بعد واپس بلا کر فرمایا:
"جب تک تیری عدت پوری نہ ہوجائے، تو اپنے شوہر کے گھر ہی رہ۔”
(رواہ مالک، الترمذی، ابو داود، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ص289)
(4) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ واپس لینا
قبیصہ بن ذویب نے اپنے پوتے کے ترکہ میں حصہ مانگا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
کتاب و سنت میں دادی کے لیے کوئی حصہ نہیں ملتا۔
بعد میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما نے گواہی دی کہ نبی ﷺ نے دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا،
تب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ واپس لے کر رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ نافذ کر دیا۔
(سنن ابی داؤد، باب فی الجدة، ج2، ص45)
(5) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مہر سے متعلق فیصلہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"کوئی شخص چار سو درہم سے زیادہ مہر نہ مقرر کرے۔”
ایک عورت نے آیت سنائی:
﴿وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا﴾
کہ اللہ نے مہر میں خزانہ دینے کی اجازت دی ہے۔
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا حکم واپس لے لیا۔
(تفسیر ابن کثیر، ج1، النساء 20، ص467)
(6) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رجم کا حکم واپس لینا
ایک زانی نے اقرار کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: "کیا تو شادی شدہ ہے؟”
اس نے کہا: "ہاں۔”
بعد میں پتا چلا کہ نکاح ہوا تھا مگر جماع نہیں ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رجم کا حکم واپس لیا اور سو کوڑے لگوائے۔
(سنن سعید بن منصور، ج3، ص211)
(7) زندیقوں کو جلانے کا واقعہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چند زندیقوں کو آگ میں جلایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
"علی کو آگ میں جلانے کا حق نہیں تھا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من بدل دينه فاقتلوه
(جو اپنا دین بدل دے اسے قتل کرو۔)”
(صحیح البخاری، باب حکم المرتد والمرتدة، ج2، ص1023)
(8) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر ورثہ میں بیٹی، پوتی اور بہن ہو تو پوتی محروم ہوگی۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لقد ضللت إذا وما أنا من المهتدين، أقضي فيها بما قضى النبي صلى الله عليه وسلم
یعنی "اگر میں یہ کہوں تو گمراہ ہوجاؤں گا، میں وہی فیصلہ کروں گا جو نبی ﷺ نے فرمایا۔”
چنانچہ انہوں نے بیٹی کو آدھا، پوتی کو چھٹا اور باقی بہن کو دیا۔
(صحیح البخاری، باب میراث ابنة ابن مع ابنة، ج2، ص997)
نتیجہ
ان آٹھ نظیروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف فیصلوں یا فتووں کو تبدیل کرنا فرض ہے،
خواہ غلط فیصلہ کرنے والا امیرالمؤمنین ہو یا امیر جماعت۔
لاحجة لأحد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم
(رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی کوئی حجت نہیں۔)
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب