کتاب سے دعائیں پڑھنا طواف و سعی کے دوران کیسا ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

اگر عمرہ یا حج کرنے والے کو بہت کم دعائیں یاد ہوں تو کیا وہ طواف، سعی اور دیگر مناسک کے دوران دعاؤں کی کتابوں سے دیکھ کر دعائیں پڑھ سکتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج یا عمرہ کرنے والے شخص کے لیے وہی دعائیں کافی ہیں جو اُسے یاد ہوں، کیونکہ:

✿ جب وہ یاد کردہ دعائیں پڑھتا ہے، تو عموماً وہ ان کے معانی بھی جانتا ہوتا ہے۔
✿ اس طرح وہ اپنی ضرورت اور حال کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دُعائیں مانگ سکتا ہے۔

دعاؤں کی کتاب سے پڑھنے کا معاملہ

✿ اگر کوئی شخص دعاؤں کی کتاب سے ایسی دعائیں پڑھتا ہے جن کے معانی وہ نہیں جانتا، یا
✿ مطوف (یعنی طواف کروانے والا شخص) کے ساتھ ساتھ وہ دعائیں دہراتا ہے جن کے معانی سے وہ ناواقف ہوتا ہے،

تو ایسی دعائیں اس کے لیے مفید نہیں ہوتیں۔

بہت سے لوگ مطوف کے پیچھے دعائیں پڑھتے ہیں جبکہ انہیں ان دعاؤں کے معانی کا علم نہیں ہوتا۔ اسی طرح:

✿ کچھ لوگ دعاؤں کی کتابوں سے دیکھ کر دعائیں پڑھتے ہیں، مگر ان دعاؤں کے مفہوم سے ناواقف ہوتے ہیں۔
✿ بعض کتابوں میں ہر چکر کے لیے الگ الگ مخصوص دعائیں لکھی ہوتی ہیں۔

ان مخصوص دعاؤں کا حکم

✿ یہ سب دعائیں بدعت (نئی ایجاد کردہ عبادتیں) ہیں۔
✿ مسلمانوں کے لیے ان مخصوص چکروں کی دعاؤں کو استعمال کرنا جائز نہیں۔
✿ یہ سب دعائیں ضلالت (گمراہی) ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے ہر چکر کے لیے کوئی مخصوص دعا مقرر نہیں کی بلکہ فرمایا:

«اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامِةِ ذِکْرِ اللّٰهِ»
(سنن ابي داؤد، المناسک، باب فی الرمل، حدیث: 1888، جامع الترمذی، الحج، باب ما جاء کیف ترمی الجمار، حدیث: 902، مسند احمد: 6/64، واللفظ له)

ترجمہ:
’’بیت اللہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی اور رمی جمرات اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔‘‘

مومن کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا مناسب ہے؟

✿ مومن پر واجب ہے کہ وہ ایسی کتابوں اور مخصوص چکر کی دعاؤں سے پرہیز کرے۔
✿ اپنی ضرورت اور حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔
✿ اپنی استطاعت اور علم کے مطابق اللہ کا ذکر کرے۔

یہ طریقہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ ایسی کتابچوں سے دعائیں پڑھے جن کے نہ صرف معانی وہ نہیں جانتا، بلکہ شاید ان کے الفاظ بھی صحیح طور پر ادا نہ کر سکتا ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے